پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری نے وزیراعظم کے بیان پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کے خلاف اس طرح کے بیانات دیے گئے تو پاکستان کے ہر طبقے سے ردعمل آئے گا۔
اسلام آباد میں سابق وزیر توانائی حماد اظہر اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے کل دو بیانات سامنے آئے، جن میں انہوں نے کہا ہے کہ عمران خان کے خلاف ان کی تقریروں پر کیس کریں گے اور دوسرا بیان ہے کہ مریم نواز کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مریم نواز کی جانب سے پاک فوج کے کور کمانڈرز کے خلاف گفتگو کے بعد پریس ریلیز آئی، جس کے بعد شہباز شریف یہ بیان آیا ہے کہ ان کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک مہم چلائی جارہی ہے کہ فوج کی سینئر قیادت اور فوج کے درمیان تفرقہ ڈالا جائے وہ انتہائی تشویش کی بات ہے، اس کے باوجود یہ ہو رہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہ واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ فوج کو سیاست میں ملوث نہ کیا جائے اور ان کی یہ بات درست ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مخصوص طریقے سے جان بوجھ کر یہ بات پھیلائی جارہی ہے، پھر ان کے چند صحافی جن کے رابطے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، ایک صحافی نے کہا کہ فلاں کور کمانڈر تبدیل کیے جائیں گے اور فوج میں یہ تبدیلیاں آئیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ایک صحافی نے کہا کہ یہ طے ہوا ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان سے تو فوج خود ہی حساب کتاب کر لے گی، اسی طرح چند وہ لوگ جن سے وہ ملتے رہتے ہیں ان کی گفتگو بڑی قابل اعتراض ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یوں لگ رہا ہے کہ ایک مخصوص طبقے کو پاکستان کے اداروں کے ساتھ کھل کر کھیلنے کا موقو دیا جارہا ہے، دوسری طرف شہباز شریف کہتے ہیں ہم عمران خان کی تقریروں پر بات کریں گے حالانکہ عمران خان نے اپنی تقریروں میں کسی کا نام نہیں لیا اور اداروں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پاکستان کے اداروں کو محفوظ رکھنے کی جتنی کوشش کی ہے، ایسی مثالیں بہت کم ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اگر فوج کا ادارہ کمزور ہوگا تو پاکستان کمزور ہوگا، اس وقت پاکستان کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش ہے، اس میں پاکستان کے جانے بوجھے دشمن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ طبقہ جو دراصل پاکستان کے خلاف ہے، ایک طبقہ پاکستان کی فوج کے خلاف ہے وہ پاکستان کی سب بڑی پارٹی اور سب سے بڑا لیڈر کے خلاف اگر وزیراعظم اس طرح کے بیان دیں گے اور ان کے بیان کو اس طرح سیاسی استعمال کریں گے تو ردعمل آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ردعمل پاکستان کے صرف ایک طبقے تک محدود نہیں رہے گا، یہ پاکستان میں ہر جگہ محسوس ہو گا، لہٰذا شہباز شریف کو مشورہ دوں گا کہ اس طرح کی گفتگو سے اجتناب کریں۔
وزیراعظم شہباز شریف کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ مریم نواز کی گفتگو کو ہم سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں لیکن آپ نے جو گفتگو کی ہے وہ کافی نہیں ہے، مریم نواز کی گفتگو پر وہ خود معافی مانگیں یا ان کی پارٹی ان کی طرف سے معافی مانگے اور یہ معافی قوم سے مانگنی چاہیے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ان کو غیر سنجیدہ قرار دے کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں، ان کے بیانات پر معافی ہر صورت مانگنی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سیاسی حالات دگرگوں ہے، جس کی وجہ معیشت انتہائی برے حالات کا شکار ہے۔ پاکستان کے عوام کا ایک بڑا حصہ اس بات پر اتفاق رائے کرچکے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو غیرملکی سازش اور غیرملکی احکامات پر ہٹایا گیا تھا اور یہ عوام کو قبول نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کے حکمران طبقے کے لیے عوام میں نفرت پائی جاتی ہے، اس نفرت کو آگے بڑھنے سے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے، عوام کے پاس جائیں اور عوام سے نیا مینڈیٹ لیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ الیکشن زیادہ نقصان کرکے کریں گے یا کم نقصان کرکے کریں گے یہ سوچنے کی بات ہے اور ہماری لانگ مارچ کی تیاریاں حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان 20 مئی کو ہوگا جو 20 مئی سے 29 مئی کے درمیان ہوگی اور اسلام آباد کے اندر پاکستان کی تاریخ کا نہیں جنوبی ایشیا کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بہتر یہ ہوگا کہ لانگ مارچ سے پہلے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے، اس سے آپ پاکستان کی سیاست نارمل کرسکتے ہیں اور اگر آپ نارمل نہیں کریں تو تمام تر نتائج کی ذمہ داری آپ پر ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ جھوٹے پرچے کرنے کی روایت زندہ نہ کریں، یہ حکومت پہلی حکومت ہے جس نے توہین مذہب کا قانون اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔
فواد چوہدری نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق سربراہ ڈاکٹر رضوان کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے شہباز شریف، حمزہ شہباز اور شریف خاندان اور دیگر ارکان کے خلاف ٹی ٹی کیس کی تحقیقات کیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر رضوان نے محنت اور دلیری سے اس کیس کی تحقیقات کی اور منطقی انجام تک پہنچایا، جس کو پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔