عدالت نے خواجہ سرا قیدیوں کیلئے الگ بیرکس کی تفصیلات طلب کرلیں


l

کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے صوبائی حکومت کی جانب سے خواجہ سرا قیدیوں کے لیے جیلوں میں الگ الگ بیرکس قائم کرنے اور متعلقہ قانون کی دیگر شقوں کی تکمیل کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے سیکریٹری داخلہ اور صوبائی لا افسر کو نوٹس ارسال کردیے۔

ٹرائل کورٹ کے سزا کے حکم کے خلاف ایک خواجہ سرا کی اپیل پر سماعت جسٹس صلاح الدین پنہور کی سربراہی میں سنگل بینچ نے کی۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ جب بنیادی حقوق پر بات کی جائے تو جیل میں سہولیات کی کمی کے بارے میں حکام کا عذر کافی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ نہ صرف ٹرانسجینڈر پرسنز (پروٹیکشن اینڈ رائٹس) ایکٹ 2018 بلکہ سندھ جیل قواعد و اصلاحی خدمات ایکٹ 2019 میں بھی خواجہ سرا کے لیے الگ الگ بیرکس کی لازمی شقیں موجود ہیں۔

بینچ نے مزید ریمارکس دیے کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جیل حکام کی جانب سے خواجہ سرا قیدیوں کو دیگر مرد اور خواتین قیدیوں سے الگ نہ رکھنے کا عذر قبول کرلیا جائے۔

اس ضمن میں سینٹرل جیل سپرنٹنڈنٹ کراچی حسن سہیٹو نے آخری حکم کی تعمیل میں ایک رپورٹ پیش کی۔

انہوں نے رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ جیل میں خواجہ سراؤں کے لیے کوئی علیحدہ بیرکس موجود نہیں ہے کیونکہ جیل میں پہلے ہی سے زائد قیدی موجود ہیں۔

جیل سپرنٹنڈنٹ کے مطابق جیل میں 2 ہزار 400 قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ وہاں 4 ہزار 633 قیدی موجود ہیں۔

ان کے مطابق جیلوں میں خواجہ سرا قیدیوں کا تناسب (001.) ہے اس طرح ان کے لیے ایک الگ بیرکس ناقابل عمل ہے۔

بینچ نے ریمارکس دیے کہ یہ ناقابل تردید عمل ہے کہ لانڈھی جیل میں اپیل کنندہ خواجہ سرا پر دوسرے قیدیوں نے حملہ کیا اور جس سے جیل انچارج کی ناکامی ظاہر ہوتی ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ وسائل سے متعلق عذر کافی نہیں جب بنیادی حقوق کا سوال ہو اور سینئر سپرنٹنڈنٹ سینٹرل جیل کراچی خواجہ سرا کے حقوق سے متعلق ٹرانسجینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ سے بے خبر نظر آئے۔

بینچ نے تمام جیل حکام کو ہدایت کی کہ جیل میں لازمی قاعدہ کی تعمیل کو یقینی بنائیں جب تک کہ حکومت اپنی ذمہ داری کو نبھا نہیں لیتی اور جیل کے عہدیداروں کو چاہیے کہ وہ سہولیات کی کمی کو بطور عذر پیش نہ کریں۔

انہوں نے ہدایت دی کہ قوانین کے مطابق ’خواجہ سرا قیدیوں کو الگ بیرکس میں رکھا جائے‘۔

عدالت نے صوبائی ہوم سیکریٹری اور سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل کو 9 مارچ کے لیے نوٹسز بھی جاری کیے جس میں حکومت کو اپنے فرائض منصبی انجام دینے کے اقدامات کو ریکارڈ کرنے کی ہدایت کی۔


اپنا تبصرہ لکھیں