عدالتی فیصلے سے معاونین خصوصی کی زیر سربراہی چلنے والی کمیٹیوں پر سوالیہ نشان لگ گیا


اسلام آباد: چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ اور محصولات عبدالحفیظ شیخ کسی بھی کابینہ کمیٹی کے سربراہ نہیں ہوسکتے یا اس کا حصہ نہیں بن سکتے ہیں لہذا وزیر اعظم کے مشیروں کی سربراہی میں قائم کم از کم آدھی درجن کمیٹیوں کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوبار ہو گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری (سی سی او پی) میں مشیروں کی تقرری کے خلاف فیصلہ سنایا تھا اور ایسی کمیٹیوں کے رکن اور انچارج بننے کے معیار کی وضاحت کی ہے۔

عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ وزیر اعظم کے مشیر اور خصوصی معاون نہ تو ایگزیکٹو اختیارات کے استعمال کے مستحق ہیں اور نہ ہی وہ حکومتی کمیٹیوں کی سربراہی کرسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ عبدالحفیظ شیخ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور سرمایہ کاری، آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر عمل درآمد، ریاستی اداروں کی تنظیم نو اور قومی قیمتوں پر نظر رکھنے سے متعلق کابینہ کی کمیٹیوں کے چیئرمین تھے۔

ڈاکٹر عشرت حسین ادارہ جاتی اصلاحات اور سادگی سے متعلق کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں۔

درخواست گزاروں میں سے ایک اور رکن قومی اسمبلی محسن نواز رانجھا کے مطابق یہ کمیٹیاں غیر فعال ہوگئیں کیونکہ وزیر اعظم کے مشیران اب ان کمیٹیوں کے سربراہ نہیں رہ سکتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون سازوں ارادات حسین اور محسن نواز رانجھا کی جانب سے دائر درخواست پر پیر کو مختصر حکم جاری کیا تھا۔

تاہم عدالت نے وزیراعظم کے تمام معاونین خصوصی اور مشیروں کی تقرری کالعدم قرار دینے کی درخواست خارج کردی تھی، درخواست گزار نے وزیر اعظم کے مشیروں اور معاونین خصوصی کو وزرائے مملکت یا وفاقی وزرا کا درجہ دینے کے عمل کو چینج کیا تھا۔

درخواست گزار نے اس بات پر بھی سوال اٹھایا جس میں کہا گیا کہ انہیں قانون کی کس اتھارٹی کے تحت وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے طور پر وزیر مملکت یا وفاقی وزیر کا درجہ حاصل ہے۔

تاہم مسلم لیگ(ن) کے اراکین اسمبلی کی جانب سے دائر درخواست میں 25 اپریل 2019 کے نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا گیا جس میں عبدالحفیظ شیخ کو نجکاری سے متعلق کابینہ کمیٹی کا چیئرمین اور عبدالرزاق داؤد اور ڈاکٹر عشرت حسین کو مذکورہ کمیٹی کا رکن بنایا گیا تھا۔

یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ آئین پاکستان کے تحت وفاقی حکومت کا مطلب وزیر اعظم اور وفاقی وزرا ہیں، آئین کے آرٹیکل 99 کے مطابق حکومت کے امور کو متعلقہ ادارے کے ذریعہ انجام دیا جانا چاہیے، عرض کیا گیا کہ وفاقی وزیر وہ ہے جو قومی اسمبلی یا سینیٹ کا ممبر ہوتا ہے اور کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

یہ عرض کیا گیا کہ اس پس منظر میں وزیر اعظم کے معاونین خصوصی یا وزیر اعظم کے مشیروں کو وزیر مملکت یا وفاقی وزرا کا درجہ دیا گیا ہے اور وہ کابینہ کے اجلاسوں میں حصہ لے رہے ہیں جو آئین کی روح کے منافی ہے۔

مزید یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ حکومت کے امور چلانے کے لیے آئین میں کہا گیا ہے کہ قواعد وضع کیے جائیں اور اسی طرح کیا گیا اور رولز آف بزنس 1973 وضع کیے گئے۔ یہ دعوی کیا گیا تھا کہ ضابطہ 4 (6) کے تحت وزیر اعظم کو اتنا اختیار حاصل ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ معاونین خصوصی کا تقرری کرسکتا ہے اور انہیں اپنی صوابدید کے مطابق حیثیت عطا کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف ڈپٹی اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا کہ رولز آف بزنس 1973 کا قاعدہ 17 کابینہ کے امور طے کرتا ہے اور رول 17(2) کابینہ کی کمیٹیوں کی تشکیل کا بندوبست کرتا ہے۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ کابینہ وزرا کے ساتھ مل کر سینیٹ اور قومی اسمبلی کے لیے اجتماعی طور پر ذمہ دار ہوگی۔

جسٹس عامر فاروق نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی اور مشیروں کے اختیارات سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے پہلے حکم کا حوالہ دیا، وزیر اعظم کے معاونین خصوصی مشاورت کے لیے کام کرتے ہیں اور صرف وہی اختیارات استعمال کرتے ہیں جو انہیں قانون کے مطابق عطا کیے گئے ہیں، وزیر اعظم کے مشیر پارلیمنٹ کے رکن نہیں ہوتے لیکن وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے خطاب کرسکتے ہیں، وہ کسی بھی ایوان کی ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لے سکتے۔

انہوں نے بتایا کہ سیکریٹری اپنے ڈویژن/وزارت کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ہیں، کسی ڈویژن یا وزارت میں معاون خصوصی یا معاونین خصوصی اس کے عہدیداروں میں شامل نہیں ہیں۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ کسی مشیر کا نہ تو کسی ڈویژن یا وزارت کے پالیسی معاملات اور نہ ہی اس پر عمل درآمد اور وفاقی حکومت کے کاروبار کو چلانے میں کوئی کردار ہوتا ہے، ایک مشیر وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی میٹنگوں میں شرکت کا مستحق ہے سوائے اس وقت کے جب وزیر اعظم کو ان کی حاضری کی ضرورت ہو اور وہ بھی خصوصی دعوت نامے سے ہی ممکن ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک مشیر کسی ڈویژن/وزارت کے کام یا پالیسی امور میں ایگزیکٹو اتھارٹی میں کسی بھی طرح مداخلت کرسکتا ہے اور نہ ہی اس پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔

اس کے بعد عدالت نے عبدالحفیظ شیخ، عبدالرزاق داؤد اور عشرت حسین کی بطور چیئرمین اور ممبران سی سی او پی کی تقرری کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔


اپنا تبصرہ لکھیں