فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین شبر زیدی نے کہا ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں نومبر میں محصولات کی وصولی میں 17 فیصد اضافہ ہوا جو 334 ارب بنتا ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ اعدادوشمار اب بھی نومبر کے ہدف سے 48 ارب روپے کم ہیں جس کی وجہ سے رواں مالی سال میں مجموعی طور پر محصولات میں کمی 211 ارب روپے بنتی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ جولائی سے نومبر کے عرصے میں مجموعی طور پر تقریباً 61 کھرب 18 ارب روپے جمع ہوئے جبکہ اس مدت کا ہدف 18 کھرب 30 ارب روپے مقرر تھا۔
شارٹ فال میں اضافے کے پیش نظر بزنس کمیونٹی کے بعض حلقوں میں تشویش پائی جارہی ہے کہ حکومت مالی سال کے اختتام سے پہلے کمی کو دور کرنے کے لیے ٹیکس سے متعلق مزید اقدامات اٹھائے گی جس میں منی بجٹ بھی ہوسکتا ہے۔
حکومت نے گزشتہ بجٹ میں 55 کھرب روپے کا ریونیو جمع کرنے کا چیلنج قبول کیا تھا جو گزشتہ سال 38 کھرب 29 کروڑ روپے تھا۔
گزشتہ سال کے بجٹ میں 38 کھرب 29 کروڑ روپے تک کے اضافے کے مقابلے میں 5.5 ارب روپے کے انتہائی چیلنج والے محصولاتی ہدف پر عمل کیا۔
انکم ٹیکس کی وصولی 175 ارب روپے ریکارڈ کی گئی جبکہ ہدف 754 ارب روپے مقرر تھا۔
اس ضمن میں کہا گیا کہ ایف بی آر کو 15 لاکھ 90 ہزار انکم ٹیکس گوشوارے موصول ہوئے ہیں جو پچھلے سال کی اسی مدت سے کہیں زیادہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال مزید 10 لاکھ افراد، جنہوں نے ریٹرن جمع کروائے ہیں رواں سال ابھی بھی فائل کرنا باقی ہے جس کے نتیجے میں ایف بی آر نے ریٹرن فائل کرنے کی آخری تاریخ میں 15 دسمبر تک توسیع کا اعلان کیا۔
کسٹم ڈیوٹی مقررہ ہدف سے 76 ارب روپے کم رہی، درآمدات میں کمی کے باعث یہ 260 ارب روپے کے قریب رہی۔
حکومت نے معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے دعوی کیا اور کہا تھا کہ مالی اکاؤنٹ میں بنیادی توازن، جس میں اخراجات میں سے ڈیٹ قرضہ شامل ہوتا ہے، اب کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے ساتھ سرپلس ہوگیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ ملک میں کبھی بھی ‘اتنا معاشی بحران نہیں دیکھا جو 2018 میں مسلم لیگ (ن) نے ملک کو دیا اور کبھی بھی (پاکستان) معاشی بحرانوں سے نکلنے کے لیے قابل ذکر کام نہیں کیا گیا جبکہ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کو پہلے 15 مہینوں میں معاشی بحران سے نکال دیا۔
واضح رہے کہ انکم ٹیکس یا سیلز ٹیکس سے متعلق کاروباری حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔
اس ضمن میں چند روز قبل چیئرمین شبر زیدی نے تاجر برادری کو یقین دہانی کروائی تھی کہ انکم ٹیکس یا سیلز ٹیکس جمع کرنے کے لیے رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کے مراکز پر چھاپے نہیں مارے جائیں گے۔
ساتھ ہی چیئرمین ایف بی آر نے کاروباری افراد، تاجروں سے اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کے مسائل کے حل میں حکام کی مدد کا مطالبہ کیا تھا۔
راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (آر سی سی آئی) کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے شبر زیدی کا کہنا تھا کہ وہ ڈائریکٹریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیش آف ان لینڈ ریونیو (آئی آر) کو چھاپے مارنے سے گریز کرنے کی ہدایت کریں گے۔