طاقت، سیاست، اور عزائم کی بساط پر نئی چال ،ٹرمپ بمقابلہ زیلنسکی کس کی ہوئی جییت ؟
تحریر راجہ زاہد اختر خانزادہ
اوول آفس کی فضا میں غیر معمولی تناؤ تھا۔ صدر ٹرمپ کی آنکھوں میں وہی روایتی غصہ اور بے نیازی تھی، جو انہیں منفرد بناتی ہے۔ یوکرینی صدر زیلنسکی، جو ایک برسوں سے جاری جنگ کے تھکے مگر حوصلہ مند سپاہی کی طرح وہاں موجود تھے، ایک بار پھر اپنی قوم کے لیے امیدوں کی ڈور تھامے کھڑے تھے۔ لیکن طاقت کی سیاست میں امیدوں سے زیادہ حقیقتوں کا وزن ہوتا ہے، اور ٹرمپ نے یہ وزن پوری قوت سے زیلنسکی پر ڈال دیا۔ “یہ جنگ شاید یوکرین سے زیادہ ہماری بنتی جا رہی ہے، اور ہمیں یہ قبول نہیں!” ٹرمپ کی گرج دار آواز اوول آفس کی دیواروں سے ٹکرا رہی تھی۔ ان کے دائیں طرف نائب صدر جے ڈی وینس، بائیں جانب سیکرٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو، اور خزانے کے سیکرٹری اسکاٹ بیسنٹ سر جھکائے بیٹھے تھے، جیسے جانتے ہوں کہ صدر کی یہ برہمی کسی بڑی پیش رفت کا اشارہ ہے۔
زیلنسکی کو امریکی حمایت کی امید تھی، مگر انہیں جو جواب ملا، وہ نہ صرف حیران کن تھا بلکہ سیاسی بساط پر ایک نئی چال کا پیش خیمہ بھی تھا۔ ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہہ دیا:
“اس سے مذاکرات ممکن نہیں۔ اسے کہو کہ اپنی ٹیم کے ساتھ یہاں سے دفع ہو جائے!”
اوول آفس میں سجے دسترخوان پر کھانے کا اہتمام موجود تھا، مگر زیلنسکی اور ان کے وفد کے لیے یہ مہمان نوازی بے معنی ہو چکی تھی۔ انہیں جس کی تلاش تھی، وہ طاقت تھی، حمایت تھی، اور وہ ٹرمپ کے ہاتھوں نہیں مل سکتی تھی۔ زیلنسکی کے چہرے پر شکست کا سایہ نہیں تھا، بلکہ وہ ایک ایسے کھلاڑی کی مانند لگ رہے تھے، جو اگلی چال کے انتظار میں ہو۔ اوول آفس سے نکلتے ہی یورپی قیادت زیلنسکی کے ساتھ رابطے میں آ گئی۔ جرمنی، اسپین، پولینڈ، لتھوانیا، اور اسٹونیا نے اپنی وفاداری کا اعادہ کیا، مگر سوال باقی رہا— کیا یورپ امریکہ کے بغیر روس کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتا ہے؟ شاید نہیں، اور یہی لمحہ امریکہ کی نئی خارجہ پالیسی کی بنیاد بن رہا تھا۔ ادھر، امریکہ نے نہ صرف یوکرین سے دوری اختیار کی بلکہ افغانستان سے بھی اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو واپس لانے کی کوششیں تیز کر دیں۔ امریکہ نے باگرام ایئرپورٹ پر دوبارہ دعویٰ اور وہاں چھوڑا گیا اسلحہ واپس لینے کا مطالبہ، بھی کردیا ہے ، جوکہ اس بات کا ثبوت تھا کہ امریکہ اب ہر جگہ اپنی ہر سرمایہ کاری کا حساب مانگ رہا ہے۔ ایسے میں ایک اور فریق خاموشی سے پس منظر میں اہمیت اختیار کر رہا ہے—پاکستان۔ ایف-16 طیاروں کی سخت نگرانی کے لیے نئے فنڈز، ملٹری کنٹریکٹرز کی سرگرمیوں میں اضافہ، اور چین کے خلاف ممکنہ اقدامات میں پاکستان کو شمولیت کی دعوت، یہ سب کچھ کسی بڑی تبدیلی کا اشارہ تھا۔ مگر کیا پاکستان کے لیے یہ آسان ہوگا کہ وہ امریکہ کی نئی پالیسی کے ساتھ ہم آہنگ ہو؟ کیونکہ یہ 9/11 کے بعد کی دنیا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اب فیصلے لینا زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ سعودی عرب کی قربت، جہاں لاکھوں پاکستانی موجود ہیں، پاکستان کے لیے ایک نازک صورتحال پیدا کر سکتی ہے۔ یہ کہنا آسان ہے کہ زیلنسکی ذلیل ہو گئے، مگر حقیقت اتنی سادہ نہیں۔ جب ایک کمزور فریق کسی بڑی طاقت کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہوتا ہے، تو وہ پہلے ہی ایک بڑی جیت حاصل کر چکا ہوتا ہے۔ امریکہ نے چاہا کہ زیلنسکی جھک جائیں، مگر وہ اپنی جگہ پر قائم رہے۔ زیلنسکی کا وائٹ ہاؤس میں داخلہ، ان کا سادہ لباس، اور رسمی پروٹوکول کو نظر انداز کرنے کا انداز، ایک واضح پیغام تھا— وہ جھکنے نہیں، بلکہ کھڑے رہنے آئے تھے۔ کیا کوئی مسلم حکمران ایسی بے باکی دکھا سکتا تھا؟ شاید نہیں۔ طاقتور کے سامنے سر جھکا دینا عام بات ہے، مگر زیلنسکی نے ایسا نہیں کیا۔
جسطرح کچھ ڈیموکریٹک سینیٹرز کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ایک اسٹیج شدہ ڈرامہ بھی ہو سکتا ہے، جو ٹرمپ نے اپنے ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے کھیلا۔ مگر اس سے اصل نقصان امریکہ کی ساکھ کو ہوا ہے۔ دنیا کا “بڑا بھائی” ہونے کا تصور کمزور ہو گیا ہے، اور ایک نئی عالمی بساط بچھ رہی ہے، جہاں طاقت کی تعریف بدل رہی ہے۔
آخر میں، ماننا پڑے گا— زیلنسکی میں دم ہے۔ چاہے ہم ان سے اختلاف کریں، مگر حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے وہ جرات دکھائی، جو بہت کم لوگ دکھا سکتے ہیں۔ دنیا بدل رہی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ جنگ، سفارت کاری، اور قیادت کے اصول بھی۔ سوال یہ ہے کہ اگلی چال کس کی ہوگی؟