پاکستان کے معروف اداکار آغا علی نے کہا ہے کہ شوبز انڈسٹری کا ایک بڑا حصہ مجھے تسلیم ہی نہیں کرتا۔
ایک پوڈ کاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے آغا علی نے بتایا کہ جب میں کالج میں تھا تب 900 لوگوں کے سامنے پرفارم کیا تھا اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ زندگی میں یہی کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں بچپن سے فلمی اموشین کا بچہ رہا، میرے والد کا انتقال 34 سال کی عمر میں ہو گیا تھا، وہ ہمارے سامنے اسکرپٹ پڑھتے تھے تو وہ چیز مجھ میں بھی آ گئی اور والد صاحب کا ایک خواب تھا اس کو بھی آگے لے کر چلنا تھا، لوگ آج مجھے بھی میرے والد کی طرح آغا کے نام سے جانتے ہیں۔
آغا علی کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے کیریئر کا آغاز نجی ٹی وی چینل سے بحیثیت پروگرام میزبان 2006ء میں کیا اس پرفارمنس پر مجھے ایوارڈ ملا جو میرا پہلا اور آخری ایوارڈ تھا۔
اداکار نے کہا ہے کہ میں انڈسٹری میں کسی لابی کا حصہ نہیں ہوں، 100 ڈراموں میں کام کر چکا ہوں لیکن مجھے ایک ایوارڈ کے علاوہ کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔
انہوں نے بتایا کہ انڈسٹری میں لوگ میرے حق میں آنکھیں بند کر لیتے ہیں، جس سال میرے ڈراموں نے ریکارڈ توڑ ٹی آر پی حاصل کی اس سال میری نامزدگی نہیں تھی، میرے ڈرامے ریویو بھی نہیں ہوتے۔
ایوارڈ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آغا علی نے کہا کہ 2014ء میں میرے انڈسٹری میں کئی تنازعات ہوئے جس پر میں نے آواز اٹھائی اور اس دوران ایوارڈ تقریب بھی چھوڑ کر چلا گیا تھا، میں اب تالیاں بجانے بھی ایوارڈز شو میں نہیں جاتا لیکن میں جانا چاہتا ہوں کیوں کہ مجھے انڈسٹری کے اس بڑے حصے پر دکھ ہے جو مجھے تسلیم نہیں کرتا، مگر میں انہیں تسلیم کرتا ہوں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے کئی لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ وہ سب سے افضل ہیں اس لیے انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، بہت سی فلمیں بنیں لیکن میں کامیاب نہیں ہوسکا کیوں کہ ہم نے ان کو نچوایا جن کو ناچنا نہیں آتا تھا، ہم نے ان کو ہیرو لیا جن کو اداکاری نہیں آتی تھی، جو انڈسٹری ایمانداری سے کام کرتی ہے وہ ترقی کرتی ہے۔