سی ای سی ایس کا ڈیلس میں بین المذاہب عشائیہ، امریکی سفیر مارک اسٹینلے مہمانِ خصوصی
رپورٹ: راجہ زاہد اختر خانزادہ
ڈیلس: “سینٹر آف ایکسیلنس فار کمیونٹی سروسز” (CECS) نے ڈیلس میں اپنا تیسرا سالانہ بین المذاہب عشائیہ منعقد کیا، جس کا مقصد مختلف مذاہب اور نسلی گروہوں کے نمائندوں کو یکجا کرنا، باہمی احترام کو فروغ دینا اور باہمی تعاون کی فضا قائم کرنا تھا۔ اس موقع پر مہمانِ خصوصی سابق امریکی سفیر برائے ارجنٹینا مارک اسٹینلے تھے، جنہوں نے اپنی سفارتی زندگی کے تجربات سے حاضرین کو روشناس کروایا۔ انہوں نے بتایا کہ ارجنٹینا میں بطور سفیر انہوں نے ہر سال مسلم اکثریتی ممالک کے سفیروں کے ساتھ افطار ڈنر کا اہتمام کیا، تاکہ تہذیبوں کے درمیان ایک پُل قائم ہو۔ ان کا کہنا تھا، “افطار کے موقع پر کی جانے والی گفتگو محض کھانے تک محدود نہیں، بلکہ یہ روح کی غذا بھی ہوتی ہے۔” سفیر اسٹینلے نے امریکہ میں مذہبی تعصبات کے بڑھتے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں واپسی پر نفرت میں اضافہ محسوس ہوا۔ انہوں نے زور دیا کہ “ہمیں اس بڑھتی ہوئی نفرت کا حل تلاش کرنا ہوگا۔” انہوں نے ارجنٹینا کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک کیتھولک اکثریتی ملک ہے، جہاں خواتین کو اپنے جسم سے متعلق فیصلے کرنے کا حق اور ہم جنس شادی کا قانونی حق امریکہ سے بھی پہلے دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ارجنٹینا کے عوام نسلی یا مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں بلکہ باہمی احترام کے ساتھ پُرامن زندگی گزار رہے ہیں۔ “ان کے بھی مسائل ہیں، مگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں۔” مارک اسٹینلے نے 7 اکتوبر کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ بظاہر یہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز پر حملہ تھا، مگر درحقیقت یہ ایران اور حماس کی سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی قربت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ “اگلے ہی دن ارجنٹینا میں تمام مذاہب کے افراد یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ساتھ آئے۔” انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکہ میں بھی ایسی ہم آہنگی ممکن ہے اور نفرت کو معمول کا حصہ نہیں بننے دینا چاہیے۔ انہوں نے ارجنٹینا کی ہجرتی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ یہ ملک انگلینڈ، اسپین، اٹلی، روس اور سلطنت عثمانیہ سے آئے یہودیوں، عربوں، عیسائیوں اور مسلمانوں سے مل کر تشکیل پایا، جنہوں نے مل کر زندگی گزاری اور ایک قوم بن گئے۔ “ارجنٹینا میں تمام مشرقِ وسطیٰ کے تارکینِ وطن کو، چاہے وہ یہودی ہوں یا مسلمان، ‘ترک’ کہا جاتا تھا۔ وہ ایک ہی زمین پر رہتے، ایک جیسی زندگی گزارتے، اور پُرامن طور پر بقائے باہمی کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔” انہوں نے مزید کہا، “یہودی اور عرب آخرکار آپس میں کزنز ہی تو ہیں۔” تقریب میں کینیڈا کی قونصل جنرل سوسن ہارپر، پیرو کے نائب قونصل جنرل رافیل ویلےہو، اور مختلف کمیونٹی اداروں کے نمائندے شریک ہوئے جن میں ٹیکساس کوالیشن آف بلیک ڈیموکریٹس، ڈگلس کمیونٹی سینٹر، امریکن جیوش کمیٹی، پاکستان امریکن بزنس فورم، انڈین امریکن مسلم کونسل، فلپائنی امریکن چیمبر آف کامرس، منہاج القرآن اسلامک سینٹر، مکہ مسجد گارلینڈ، مدینہ مسجد کیرولٹن، نیز فریسکو اور پلینو کے اسلامی مراکز، ترک، چینی، کمبوڈیائی، فلسطینی، بنگلہ دیشی، مصری، میکسیکن، اور آذربائیجانی کمیونٹیز شامل تھیں۔
سی ای سی ایس کے صدر ندیم زمان نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور شمالی ٹیکساس میں تارکینِ وطن کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا، “ہم ہر قوم اور ہر مذہب کی کمیونٹی کو یہ پلیٹ فارم مہیا کرتے رہیں گے۔”
ڈیلس کاؤنٹی ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین کارڈل کولمین نے بھی تقریب سے خطاب کیا اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ایسے پروگرامز کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے سی ای سی ایس کی خدمات کو سراہا۔
امریکن جیوش کمیٹی (AJC) ڈیلس کے ریجنل ڈائریکٹر، ربی جوئیل شویٹزر نے اسلاموفوبیا اور یہود دشمنی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا اور بتایا کہ سی ای سی ایس نے ایف بی آئی اور محکمہ انصاف کے ساتھ مل کر ان مسائل پر آگاہی مہمات چلائی ہیں۔
اس سال “کمیونٹی ایکسی لینس ایوارڈ” سابق ریاستی نمائندہ اور ٹیکساس ڈیموکریٹک پارٹی کی نائب چیئر، ٹیری ہوڈج، اور جج ٹینا کلنٹن کو دیا گیا۔ ان دونوں خواتین نے رنگ و نسل کی نمائندہ حیثیت سے اپنی خدمات پر یہ اعزاز حاصل کیا۔ دونوں نے سی ای سی ایس کی خدمات کو سراہتے ہوئے کمیونٹی کی خدمت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
تقریب کے اختتام پر جج کم فِپس، ڈسٹرکٹ کلرک فلیشیا پیٹری، اور کاؤنسل وومن رووینا واٹرز کا خصوصی شکریہ ادا کیا گیا۔
تقریب کی نظامت سی ای سی ایس کے ڈائریکٹرز پرویز ملک، ملیحہ شہزاد اور ایم او افضل نے کی۔
یہ شام صرف الفاظ کی نہیں، بلکہ اس جذبے کی ترجمان تھی جو مختلف مذاہب کو ایک میز پر لا کر یہ ثابت کر گئی کہ معاشرتی ہم آہنگی صرف ممکن ہی نہیں، بلکہ ضروری ہے۔