سینیٹ کمیٹی نے پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ ایکٹ کی منظوری دے دی

سینیٹ کمیٹی نے پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ ایکٹ کی منظوری دے دی


سینیٹ کمیٹی نے پبلک اینڈ پرائیویٹ پارٹنر شپ اتھارٹی (پی 3 اے) ایکٹ کو متفقہ منظوری دے دی جو دونوں ایوانوں کے ایک ایک رکن کو اس کے بورڈ میں نمائندگی دیتا ہے، لیکن صوبائی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے پاک چین اقتصادی راہداری اتھارٹی (سی پیک اے) پر بل منظور نہیں کیا۔

سلیم مانڈوی والا کے زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ترقی و منصوبہ بندی کے اجلاس میں پی 3 اے ایکٹ متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ایک، ایک رکن نامزد کرنے کی تجویز دی گئی۔

تجویز میں کہا گیا کہ اتھارٹی بورڈ کے لیے یہ اراکین چیئرمین اور اسپیکر کی جانب سے نامزد کیے جائیں گے تاکہ پی 3 موڈ میں منصوبوں کی ترقی پر مشاورت کی جاسکے۔

سینیٹر عبد القادر کے پیش کردہ بل میں پی3 اے بورٹ میں نجی شعبے کے اراکین کی تعداد 5 سے کم کرکے 4 کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے شرط رکھی گئی کہ ہر صوبے سے ایک رکن بھی اس میں شامل ہوگا۔

مذکورہ تجویز سے متعلق وضاحت پیش کی گئی کہ اس طرح کی اتھارٹیز کے بورڈ میں منتخب نمائندگان کو شامل ہونا چاہیےتاکہ پالیسی تشکیل دینے کے دوران ووٹرز اور عوام کے مفادات کی نمائندگی کی جاسکے۔

انہی خطوط پر صوبائی نمائندگان کو بھی صوبائی مفادات کا خیال رکھنا ہوگا کیونکہ اس طرح کے منصوبوں کے روزگار پر کافی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اجلاس میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کی جانب سے 2 ارب روپے اور اس سے زائد مالیت کے منصوبوں سے متعلق مناسب معلومات فراہم نہ کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔

کمیٹی کو فنڈنگ کے ذرائع اور تخمینے کی لاگت کی بابت مختلف منصوبوں کے اسٹیٹس کے بارے آگاہ کیا گیا تاہم اراکین نے معلومات کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا اور آئندہ اجلاس میں تازہ ترین اعداد و شمار کے ساتھ تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کی۔

اس موقع پر ٹینڈرنگ کے عمل اور بڑے منصوبوں کو چھوٹے منصوبوں میں توڑنے کی وجوہات کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے۔

تاہم این ایچ اے کے نمائندوں نے کہا کہ یہ طریقہ درمیانی درجے کے ٹھیکیداروں کی سہولت کے لیے استعمال کیا گیا تھا تاکہ وہ بھی کام کر سکیں۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک اتھارٹی خالد منصور نے بورڈ میں صوبائی نمائندوں کی شمولیت پر حکومتی مؤقف کے ساتھ واپس آنے کا وعدہ کیا، جس پر سی پیک اتھارٹی سے متعلق اراکین کے بلز مؤخر کردیے گئے۔

سینیٹرز نے اپنا نظریہ پیش کرتےہوئے کہا کہ سی پیک منصوبوں اور خصوصی زونز کے حوالے سے صوبوں کے درمیان بالخصوص بلوچستان میں بے چینی بڑھ رہی ہے، لہذا ضروری ہے کہ تمام صوبوں کو اتھارٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں نمائندگی دی جائے۔

خالد منصور نے کہا کہ اتھارٹی کو اربوں ڈالر کے پروگرام سے متعلق مختلف منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے ماہرین کی ضرورت ہے اور سی پیک اتھارٹی کے پاس صوبوں سے الگ الگ رابطوں کا طریقہ کار ہے جس میں مختلف شعبوں میں 11 ورکنگ گروپس شامل ہیں۔

اس سلسلے میں سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اتھارٹی میں کم از کم 6 اراکین شامل ہونے چاہئیں، جو چاروں صوبوں، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی نمائندگی کریں۔


اپنا تبصرہ لکھیں