کراچی:
کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں، ان حکومتوں میں شامل سیاسی جماعتیں اور متعلقہ انتظامی محکمہ خود سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
وفاقی او ر صوبائی حکومت میں شامل جماعتوں کے سیاسی مفادات کراچی کے شہریوں کے اس برسوں پرانے خواب کی تعبیر میں سب سے بڑی دیوار ہیں۔ ٹریک کو خالی کرانے ، متبادل زمین کی فراہمی، ہزاروں خاندانوں کی منتقلی اور آبادکاری، منصوبے کا ڈیزائن اور فزیبلیٹی اور سرمائے کا حصول ایسے مسائل ہیں جن پر وفاقی اور صوبائی حکومت ، پاکستان ریلوے اور دیگر متعلقہ ادارے ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں تاہم سپریم کور ٹ کے حکم ناموں کے باوجود ان ذمے داریوں کی ادائیگی کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا گیا اور وفاق اور سندھ حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ منصوبہ بھی سیاست کی نذر ہوگیا۔
سپریم کورٹ کے مسلسل احکام کے باوجود یہ منصوبہ نمائشی کارروائیوں سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکا۔ جمعرات کو بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری میں کراچی سرکلرریلوے کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے حکم دیا کہ ایک ماہ میں سرکلر اور لوکل ٹرین چلائی جائے ، سپریم کورٹ نے ریلوے کی زمین سے تجاوزات 15 دن میں ہٹانے کا حکم بھی دیا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے گذشتہ ایک سال سے پاکستان ریلوے و سندھ حکومت کو کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور تجاوزات کے خاتمے کے لیے احکام جاری کیے جارہے ہیں تاہم متعلقہ اداروں نے نہ تو تجاوزات کے خاتمے کے لیے کوئی اقدامات اٹھائے ہیں اور نہ ہی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی ہے،وزیر مینشن تاملیر ہالٹ اور لیاقت آباد سے سائٹ تک پھیلے 43کلو میٹر ریلوے ٹریک کے دونوں اطراف قائم کچی آبادیاں اور ہزاروں پختہ مکانات و کثیر منزلہ عمارتیں تجاوزات کی شکل میں موجود ہیں جن سے سیاسی جماعتوں کا بڑا ووٹ بینک وابستہ ہے۔
ٹریک میں شامل ضلع جنوبی میں ریلوے اراضی واگزار کرانے میں پی ٹی آئی تو لیاقت آباد، ناظم آباد اور گلشن اقبال کے علاقوںمیں ایم کیو ایم آڑے آرہی ہیں جو اپنے اپنے ووٹ بینک کے تحفظ کے لیے پہلے متبادل اراضی کی فراہمی کا مطالبہ کررہی ہیں ، اس مطالبے پر عمل درآمد کے لیے متبادل اراضی کی فراہمی سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے اور اپنے سیاسی حریفوں کی طرح پیپلز پارٹی بھی اس منصوبے میں کبھی سنجیدہ نہیں رہی۔ سندھ حکومت کے پاس سرکلر ریلوے ٹریک کے اردگرد قائم آبادیوں کا سروے تک نہیں ہے۔
جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی(جائیکا) کے 2013میں کیے گئے سروے کے مطابق سرکلر ریلوے ٹریک پر 4653 خاندان آباد تھے جن کی تعدا د میں7 سال کے دوران غیرمعمولی اضافہ ہوچکا ہے۔
سپریم کورٹ کے گذشتہ حکم کی بجاآوری کے لیے دسمبر 2018میں سرکلر ریلوے ٹریک کو دونوں اطراف سے تجاوزات سے پاک کرنے کی مہم کا آغاز کیا گیا جس میں کراچی میونسپل کارپوریشن اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن نے ٹریک پر قائم کمرشل تجاوزات ہٹانے میں پاکستان ریلوے کی مدد کی تاہم ٹریک پر قائم مکانات اور آبادی کی وجہ سے تجاوزات کے خاتمے کی مہم مکمل نہ ہوسکی او ر اب بھی ٹریک کا ایک بڑا حصہ تجاوزات کا شکار ہے۔