ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ کا سلسلہ جمعرات کو بھی جاری رہا اور مقامی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر انٹربینک مارکیٹ میں 227 روپے کی ریکارڈ سطح تک جا پہنچا۔
بدھ کو ڈالر 224.92 روپے پر بند ہوا تھا۔
فارن ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایف اے پی) کے مطابق آج جب سیشن کا آغاز ہوا تو، صبح 10:57 بجے تک مقامی کرنسی کی قدر 2.08 روپے کی کمی کے بعد 227 روپے تک گر گئی۔
سیاسی افراتفری
ایف اے پی کے چیئرپرسن ملک بوستان نے گزشتہ پانچ سیشنز میں روپے کی مسلسل گراوٹ کی وجہ ‘سیاسی افراتفری’ اور بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں اضافے کو قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 5 ٹریڈنگ سیشنز سے جو روپیہ مسلسل گررہا ہے اس کی وجہ سیاسی افراتفری ہے جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امپورٹرز بھی پریشان ہو کر غیر ضروری طور پر مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری کررہے ہیں جس سے انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے۔
اس کے علاوہ گزشتہ ایک ہفتے میں ڈالر عالمی مارکیٹ میں جاپانی ین اور برطانوی پاونڈ سمیت 40 سے زائد کرنسیوں کے مقابلے میں مضبوط ہوا ہے اس کے اثرات بھی یہاں آئے ہیں۔
ملک بوستان نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو سٹہ بازی میں ملوث بینکوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت میں اضافہ روکا جاسکے۔
انہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ وہ آئی ایم ایف سے جلد قرضے کی قسط کا بندوبست کرے تاکہ مارکیٹ کا اعتماد حکومت پر بحال ہوسکے۔
مفتاح اسمٰعیل پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کیلئے زور
دریں اثنا عبداللہ ذکی درآمد کنندہ اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر نے ‘گھبراہٹ میں خریداری’ کو مورد الزام ٹھہرایا اور وزیر خزانہ سے مطالبہ کیا کہ ‘”آئی ایم ایف کے ساتھ متفقہ روپے کی قدر سے متعلق شرائط پر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ فوری طور پر تبادلہ خیال کریں’۔
انہوں نے کہا کہ درآمد کنندگان اور برآمد کنندگان دونوں ہی مارکیٹ میں ڈالر کی کمی کی وجہ سے پریشان ہیں۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ‘روپے کی قدر کو 240 تک لے جانے کے حوالے سے مارکیٹ میں افواہیں گردش کر رہی ہیں جس سے خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ کو ان افواہوں کو مسترد کرنا چاہیے تاکہ مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال ختم ہو جائے۔
روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ
خیال رہے کہ 22 جون کو 211.93 کو چھونے کے بعد جولائی کے پہلے ہفتے میں روپیہ بڑھ کر 204.56 پر آگیا تھا۔
اس کے بعد یہ ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کھوتا رہا لیکن جب 15 جولائی کو ملک نے آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے عملے کی سطح پر معاہدہ کیا تو اس میں معمولی اضافہ ہوا۔
تاہم اس کے بعد سے ہر سیشن میں مسلسل روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔
اسٹیٹ بینک نے اس صورتحال کو ‘مارکیٹ کے طے شدہ ایکسچینج ریٹ سسٹم’ سے منسوب کیا جس کے تحت کرنٹ اکاؤنٹ کی پوزیشن، خبریں اور مقامی غیر یقینی صورتحال کرنسی کے روزمرہ کے اتار چڑھاو میں حصہ ڈالتی ہے۔
بطاہر گراوٹ کو کم کرنے کی کوشش میں اسٹیٹ بینک نے کہا کہ روپے کی مضبوطی کا ایک ‘بہتر پیمانہ’ حقیقی مؤثر شرح مبادلہ ہے، جس میں ان کرنسیوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے جن میں پاکستان افراط زر سے ایڈجسٹ شرائط میں تجارت کرتا ہے۔