سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کوئٹہ کے وکیل عبدالرزاق شر کے قتل سے متعلق سماعت کے دوران بینچ کے دو اراکین کے خلاف الزامات لگانے پر وکیل امان اللہ کنرانی کی ’غیر مشروط‘ معافی قبول کرلی۔
خیال رہے کہ وکیل عبدالرزاق شر کو 6 جون کو ایئرپورٹ روڈ پر عالمو چوک کے قریب نامعلوم حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
پولیس کے مطابق حملہ اس وقت ہوا تھا جب وکیل بلوچستان ہائی کورٹ جا رہے تھے جہاں خودکار ہتھیاروں سے لیس نامعلوم افراد نے انہیں نشانہ بنایا۔
وکیل کے قتل کے بعد حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ایک دوسرے پر قتل کے الزامات عائد کرنا شروع کردیے تھے۔
بعد ازاں عبدالرزاق شر کے بیٹے وکیل سراج احمد کی شکایت پر کوئٹہ کے شہید جمیل پولیس اسٹیشن میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ نے گزشتہ روز پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے وکیل کے قتل سے متعلق ان کے خلاف درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کو چیلنج کرنے کی درخواست پر سماعت کی جہاں وکلا اور ججز کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔
آج جاری کردہ تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایڈووکیٹ امان اللہ کنرانی نے اپنے الزامات واپس لے لیے اور غیر مشروط معافی بھی مانگی ہے۔
تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ متعلقہ وکیل کی طرف سے شکایت کنندہ سے مانگی گئی غیر مشروط معافی کو قبول کر لیا گیا ہے۔
سماعت 24 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا کہ اس سے قبل دیا گیا عبوری حکم برقرار رہے گا۔
تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ کیس کسی بھی دستیاب بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکتا ہے کیونکہ پھر موسم گرما کی تعطیلات کی وجہ سے موجودہ بینچ اگلی سماعت پر دستیاب نہیں ہو سکتا۔
قبل ازیں وکیل امان اللہ کنرانی نے کسی بھی غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا تھا، تاہم اپنے رویے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت تحریری حکم جاری کرے گی کیونکہ ججز اس وقت وکیل کی معافی قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔
درخواست
ایک دن قبل سماعت کے دوران جب مظاہر علی اکبر نقوی نے امان اللہ کنرانی سے پوچھا کہ کیا انہوں نے اس کیس میں درج ایف آئی آر پڑھی ہے؟
وکیل نے جواب دیا کہ انہوں نے نہ صرف ایف آئی آر پڑھی ہے بلکہ وہ حکم بھی پڑھا ہے جس میں لاہور کے سابق سٹی پولیس افسر غلام محمود ڈوگر کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے جج نے پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد انتخابات میں تاخیر پر از خود کارروائی شروع کرنے کی تجویز دی تھی۔
اسی دوران وکیل امان اللہ کنرانی نے بینچ کے دو ججز پر الزامات عائد کیے اور کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی نے غلام محمود ڈوگر کیس میں انتخابات پر ازخود نوٹس لیا تھا، جبکہ جسٹس حسن اظہر رضوی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ زیرِ التوا ہے۔
امان اللہ کنرانی نے میرٹ پر مقدمے کی سماعت نہ ہونے کا الزام عائد کیا تو ججز نے شدید برہمی کا اظہار کیا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ’آپ ججز کی کردارکشی کیسے کرسکتے ہیں؟ میرے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں کون سا کیس زیرِ التوا ہے؟ ثبوت دیں، ورنہ توہینِ عدالت کے نوٹس کا سامنا کریں‘، جس کے بعد جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کو اجازت کس نے دی کہ ہمارے بارے میں اس طرح کی بات کریں؟‘
وکیل امان اللہ کنرانی نشست پر بیٹھنے لگے تو بینچ نے انہیں دوبارہ روسٹرم پر بلا لیا، اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اگر آپ کو ججز پر کوئی اعتراض تھا تو روسٹرم پر آکر ایسی باتیں کرنے کے بجائے تحریری طور پر اپنا اعتراض جمع کرواتے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ’ آپ نے جو الزامات عائد کیے ہیں، آپ کو اس کا جواب دینا ہوگا، ہم کمزور نہیں ہیں’، اس پر امان اللہ کنرانی نے جواب دیا کہ ’جج صاحب آپ چلائیں مت، میں آپ کا غلام نہیں ہوں‘، ردعمل کے طور پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ’کیا ہم آپ کے غلام ہیں؟ آپ فوری طور پر عدالت سے غیر مشروط معافی مانگیں‘۔
وکیل امان اللہ کنرانی نے ہاتھ جوڑ کرمعافی مانگتے ہوئے کہا کہ ’آپ جج بنیں تو ٹھیک ہے لیکن اگر آپ پارٹی بنیں گے تو میں بولوں گا، پارٹی بننا ہے تو کرسی سے اتر جائیں‘۔
معافی کی استدعا کے بعد بینچ کے سربراہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے دونوں ججز سے غیر مشروط معافی قبول کرنے سے متعلق پوچھا تو جسٹس حسن اظہر رضوی بولے الزامات واپس لینے پر معافی قبول کرسکتا ہوں، لیکن جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے معافی قبول کرنے سے متعلق ’ایبسلوٹلی ناٹ‘ کہا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے وکیل امان اللہ کنرانی کو تحریری معافی نامہ جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔