سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی دائر درخواست میں ان کی اہلیہ کو ویڈیو لنک کے ذریعے بیان دینے کی اجازت دے دی۔
عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کا معاملہ زیر سماعت ہے اور آج کی سماعت میں ابتدا میں ہی عدالت نے جسٹس عیسیٰ کی گزشتہ روز کی پیشکش کو قبول کرلیا۔
خیال رہے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
اس معاملے پر اب تک متعدد طویل سماعتیں ہوچکی ہیں جبکہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان اس کیس میں پہلے وفاق کی نمائندگی کر رہے تھے تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد نئے اٹارنی جنرل نے مذکورہ معاملے میں حکومتی نمائندگی سے انکار کردیا تھا۔
ایک طویل وقفے کے بعد اس کیس کی سماعت جون کے آغاز سے دوبارہ شروع ہوگئی ہے اور اب فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوکر دلائل دے رہے ہیں جبکہ گزشتہ سماعت میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدالت کے کمرہ نمبر ایک میں اپنی اہلیہ کا پیغام لے کر بطور درخواست گزار پیش ہوگئے۔
آج (جمعرات) کو سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے خاص طور پر اس کیس میں نمائندگی کے لیے وزارت سے مستعفی ہونے والے سابق وزیر قانون فروغ نسیم پیش ہوئے جبکہ جسٹس عیسیٰ کی نمائندگی ان کی قانون ٹیم کے سینئر وکیل منیر اے ملک نے کی۔
جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ مختصر بات کریں، سربراہ فل کورٹ
سماعت کے آغاز میں ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے گھر پر ویڈیو لنک کے انتظامات کروا رہے، دوپہر کو ان کا بیان لیں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہماری درخواست ہے کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ مختصر بات کریں، ان کی اہلیہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ بیان دیتے وقت مناسب الفاظ کا استعمال کریں، اہلیہ عدالتی ڈیکورم کا خیال رکھیں۔
سربراہ بینچ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ہمارے سامنے فریق نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں کہا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ کا اہم پیغام لائے ہیں کہ ان کی اہلیہ جائیدادوں کے ذرائع بتانا چاہتی ہیں، اہلیہ کے والد کو کینسر کا عارضہ لاحق ہے وہ ویڈیو لنک کے ذریعے جائیداد سے متعلق بتانا چاہتی ہیں، عدالت اہلیہ کو ویڈیو لنک پر مؤقف دینے کا موقع دے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اہلیہ کہتی ہیں کہ ایف بی آر نے ان کی تذلیل کی ہے، وہ کہتی ہیں کہ ایف بی آر کو کچھ نہیں بتائیں گی، اس پر سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال بولے تھے کہ آپ کی اہلیہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں، یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا بیان بڑا اہم ہوگا تاہم ہماری ان سے درخواست ہے کہ وہ تحریری جواب داخل کر کے مؤقف دیں، تحریری جواب آنے کے بعد مقدمے کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ میری اہلیہ وکیل نہیں ہیں، میری اہلیہ کو کسی وکیل کی معاونت نہیں ہوگی۔
جسٹس عیسیٰ نے کہا تھا کہ میری اہلیہ کو ریفرنس کی وجہ سے بہت کچھ جھیلنا پڑا ہے، میری اہلیہ کو عدالت کے سامنے مؤقف دینے کی اجازت ہونی چاہیے، میں اپنی اہلیہ کا وکیل نہیں ان کا پیغام لے کر آیا ہوں، جس کے بعد عدالت نے اس معاملے پر آج فیصلے کا کہا تھا۔
جوڈیشل کونسل فوجداری اور دیوانی حقوق کا فیصلہ نہیں کرتی، حکومتی وکیل
علاوہ ازیں آج کی سماعت کے دوران حکومتی وکیل نے اپنے دلائل دیے اور کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل فوجداری اور دیوانی حقوق کا فیصلہ نہیں کرتی، جوڈیشل کونسل فیکٹ فائنڈنگ فورم ہے جو اپنی سفارشات دیتی ہے، بدنیتی پر فائنڈنگ دینے پر کونسل کے سامنے کوئی چیز معنیٰ نہیں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کونسل بدنیتی کے ساتھ نیک نیتی کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، جوڈیشل کونسل کے سامنے تمام فریقین ایک جیسے ہوتے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کہ عدلیہ پر چیک موجود ہے، کسی جگہ بدنیتی ہو تو عدالت جائزہ لینے کے لیے بااختیار ہے۔
عدالت اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی، جسٹس عمر عطا بندیال
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
اسی دوران عدالتی بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ بولے کے کیا عدالت اور کونسل کے بدنیتی کے تعین کے نتائج ایک جیسے ہوں گے، جس پر فروغ نسیم نے یہ جواب دیا کہ کونسل بدنیتی پر آبزرویشن دے سکتی ہے، عدالت کو بدنیتی پر فائنڈنگ دینے کا اختیار ہے۔
جس پر جسٹس مقبول باقر نے یہ سوال کیا کہ کیا کونسل صدر مملکت کے کنڈکٹ کا جائزہ لے سکتی ہے، اس پر حکومتی وکیل نے جواب دیا کہ کونسل کسی کے کنڈکٹ کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، کونسل کے پاس ہر اتھارٹی ہے۔
فروغ نسیم کی بات پر جسٹس سجاد علی شاہ نے یہ پوچھا کہ کیا عدالت عظمیٰ کے بدنیتی کے معاملے کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ ہے، جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے راستے میں بدنیتی کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
دوران سماعت فروغ نسیم نے شوکاز نوٹس کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شوکاز نوٹس میں 3 نکتے جوڈیشل کونسل نے شامل کیے، جوڈیشل کونسل نے ریفرنس کا جائزہ لے کر الزام کے تین نکات نکالے، عدلیہ کو شوکاز نوٹس کے مواد کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔
تاہم فروغ نسیم کی بات پر عدالتی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر نے کہا کہ اس دلیل کی حمایت میں آرمی چیف کیس کا حوالہ کیوں دیا، جس پر حکومتی وکیل بولے کہ آرمی چیف کا مقدمہ درخواست واپس لینے کی استدعا کے باوجود بھی چلا۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ آرڈر 23 کا اصول ہے کہ درخواست عدالت کی اجازت کے بغیر نہیں لی جا سکتی، ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال کیا کہ کیا ریفرنس کالعدم ہو جائے تو پھر بھی اپنی جگہ زندہ رہے گا۔
عدالت کے سوال پر فروغ نسیم بولے کہ میری بصیرت کے مطابق یہی دلیل ہے ریفرنس کے بعد بھی شو کاز نوٹس ختم نہیں ہوتا، سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کا حکم پاس نہیں کیا لیکن آرمی چیف کا مقدمہ چلا۔
ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کونسل تمام 28 سوالات پر آبزرویشن دینے کی مجاز ہے، جج نے تحریری جواب دے کر جوڈیشل کونسل کے سامنے سرنڈر کردیا۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کی رائے کا کونسل جائزہ لے سکتی ہے، صدر کی رائے کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوتی، اس پر جسٹس عمر عطا نے ریمارکس دیے کہ اعتراض یہ ہے کہ ریفرنس میں قانونی نقائص اور بدنیتی ہے۔
اس پر فروغٖ نسیم کا کہنا تھا کہ قانون کہتا ہے کہ کم معیار کے ساتھ بھی کام چلایا جا سکتا ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جج کے ساتھ کم معیار کے ساتھ کام چلایا جائے؟
عدالتی بات پر حکومت وکیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 209 میں شاہد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اس پر سربراہ بینچ نے کہا کہ جج کو ہٹانے کی کارروائی میں شواہد کا معیار دیوانی مقدمات جیسا نہیں ہونا چاہیے۔
جج کیخلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کیلئے ٹھوس شواہد ہونے چاہیئیں، عدالت
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جج کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کے لیے ٹھوس شواہد ہونے چاہئیں، براہ کرم مثال دیتے ہوئے احتیاط کریں، عدالت یہاں آئینی معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔
اس پر فروغٖ نسیم نے کہا کہ کونسل نے بھی اپنے ذہن کا استعمال کرکے شوکاز نوٹس کیا، ریفرنس کے معاملے پر صدر کے بعد جوڈیشل کونسل اپنا ذہن استعمال کرتی ہے، کونسل شوکاز نوٹس کرنے سے پہلے اور بعد میں بھی ریفرنس کا جائزہ لیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جج کے خلاف کارروائی کے لیے شواہد کا معیار کیا ہو یہ کونسل پر چھوڑ دینا چاہیے، جس کے جواب میں جسٹس عمر عطا بندیال بولے کے ریفرنس میں محض دستاویزات لف نہیں ہونی چاہیے، ریفرنس کے ساتھ الزام ثابت کرنے کے ٹھوس شواہد بھی ہوں۔
جس پر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ شواہد اگر تسلم شدہ ہوں تو حقائق کا مسئلہ نہیں ہوتا، کسی مقدمے میں شواہد تسلیم نہ کیے جائیں تو بات اور ہے، کسی دباؤ کے تحت کوئی مواد لیا جائے تو عدالت قبول نہیں کرتی۔
سماعت کے دوران جب جسٹس عیسیٰ کی قانونی ٹیم کے وکیل منیر اے ملک عدالت میں آئے تو جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ کو کمرہ عدالت میں دیکھ کر اچھا لگا۔
بعد ازاں سماعت میں عدالتی بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس مقدمے کا مواد، دستاویزات کیسے اکھٹی ہوئی، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ تشدد کے بغیر حاصل مواد قابل قبول دستاویز ہیں، امریکا میں چوتھی ترمیم کے مطابق شواہد کی تلاش قانونی ہیں، پاکستان اور بھارت میں امریکا کی چوتھی ترمیم جیسی مثال نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں جاسوسی اور چھپ کر تصویر بنانے کو قابل قبول شواہد قرار دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ کیسے پتہ چلا کہ لندن میں جائیدادیں ہیں، جسٹس منصور علی
دوران سماعت حکومتی وکیل کی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین آزادانہ نقل و حرکت، وقار، ذاتی عزت و تکریم کا تحفظ فراہم کرتا ہے، ہمارے ملک میں ایف بی آر، نادرا، ایف آئی اے جیسے دیگر ادارے موجود ہیں ، آپ کہہ رہے ہیں میری جاسوسی ہو سکتی ہے، میں گالف کلب جاتا ہوں میری تصاویر لی جاتی ہیں، یہ تو ایسے ہی ہوگا جمہوریت سے فاشزم کی طرف بڑھا جائے۔
اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ میں فاشزم کی بات نہیں کر رہا، یہاں بات شواہد کے اکھٹا کرنے کی ہو رہی ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس سے غرض نہیں کہ پبلک ڈومین میں جائیدادیں پڑی ہیں یا نہیں، ان جائیدادوں کو ڈھونڈنے کے اختیارات کہاں سے لیے گئے، سوال یہ ہے کہ کس طرح سے پتہ چلا کہ لندن میں جائیدادیں ہیں۔
آؤ جائیدادیں ڈھونڈیں، آؤ جائیدادیں ڈھونڈیں کا اختیار کہاں سے حاصل کیا گیا؟ عدالت
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آؤ جائیدادیں ڈھونڈیں، آؤ جائیدادیں ڈھونڈیں کا اختیار کہاں سے حاصل کیا گیا، جس پر فروغ نسیم نے شکایت کنندہ صحافی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صحافی کی طرف سے معلومات آگئیں تو اس کی حقیقیت کا پتا چلایا گیا۔
اس پر پھر جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ صحافی نے کوئی آرٹیکل نہیں لکھا جس کے وہ ذرائع (سورس) چھپائے، صحافی آرٹیکل یا خبر دیں تو سورس نہیں پوچھ سکتے، میری تشویش یہ ہے کہ شواہد کس طرح تلاش کیے گئے۔
اپنے ریمارکس میں انہوں نے کہا کہ یہ کوئی نہیں کہتا کہ جج جوابدہ نہیں ہے ، جج چاہتا ہے کہ میری پرائیویسی (رازداری) بھی ہو اور میری عزت کا خیال بھی رکھا جائے، میں تو کہتا ہوں جو کرنا ہے قانون کے مطابق کریں۔
اس پر فروغ نسیم نے یہ جواب دیا کہ پرائیویسی کا حق محدود ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جمہوری معاشروں میں قانون ترقی کرتا ہے۔
ساتھ ہی بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر بولے کہ ضیا المصطفیٰ نامی شخص کے پاس اختیار نہیں تھا کہ نجی جاسوس کی خدمات حاصل کرے، شکایت کنندہ کی درخواست میں صرف ایک جائیداد کا ذکر تھا۔
انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کی منظوری کے بغیر کسی جج کے خلاف مواد اکٹھا نہیں ہوسکتا۔
حکومت کو جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا درست نام کیسے پتہ چلا؟، جسٹس سجاد علی شاہ
عدالت کی بات پر فروغ نسیم نے بولا کہ برطانیہ نے تمام جائیدادوں کی تفصیل ڈال دی ہے، جج نے بھی تسلیم کیا کہ برطانیہ کی جائیداد ویب سائٹ پر موجود ہے، برطانیہ کی جائیداد کی درست معلومات کے لیے لینڈ رجسٹری کی ویب سائٹ استعمال کی جاتی ہے، ویب سائٹ سے معلومات لینے سے سکریس کے حق کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس پر بینچ کے رکن جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اہلیہ کا درست نام ہمیں معلوم نہیں، حکومت کو اہلیہ کا درست نام کیسے پتا چلا؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت کے پاس اختیار کہاں سے آیا۔
ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے یہ پوچھا کہ کیا حکومت نے عبدالوحید ڈوگر سے پوچھا کہ وہ معلومات کدھر سے لے کر آئے ہیں، اس پر جسٹس مقبول باقر نہ یہ سوال اٹھایا کہ وحید ڈوگر کو کیسے پتا چلا یہ جائیدادیں گوشواروں میں ظاہر نہیں کی گئیں۔
عدالتی استفسار پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم کہ عبدالوحید ڈوگر کو یہ معلومات کدھر سے ملیں، آرٹیکل 184 تین کے مقدمے میں عدالت معلومات کے ذرائع نہیں پوچھتی۔
جج کو معلوم ہونا چاہیے وہ عوام کی نظروں میں ہے، جسٹس عمر عطا
اس بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جج کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ عوام کی نظروں میں ہے، ہم ججز کو اس حوالے سے محتاط ہونا چاہیے، آپ کی ناک کے نیچے ڈسٹرکٹ جوڈیشری (ضلعی عدلیہ) میں کیا ہوتا ہے آپ کو علم نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس شریف آدمی کا ماضی اچھا نہیں تھا، ساتھ ہی اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بولے کہ میں احتساب عدالت کے جج کی بات کر رہا ہوں، حکومت کے پاس بڑے وسائل ہوتے ہیں(لیکن) اس معاملے پر عدالت کو ایکشن لینا پڑا۔
ملک میں احتساب کے نام پر تباہی ہورہی ہے، جسٹس مقبول باقر
اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ہوسکتا کہ اس مقدمے میں اس بات کی تصحیح کریں، ملک میں احتساب کے نام پر تباہی ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ احتساب کے نام پر جو تباہی ہو رہی ہے اس پر بھی لکھیں گے، تمام کارروائی کے بعد وحید ڈوگر کو لاکر کھڑا کردیا گیا، میں اپنی تفصیلات آرام سے نہیں لے سکتا تو ایک جج کی تفصیلات وحید ڈوگر کے پاس کیسے آئی۔
اسی دوران جسٹس یحییٰ آفریدی بولے کہ مسئلہ یہ ہے کہ کب حکومت نے گوشوارے مانگے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ میں نے کسی سے گوشوارے نہیں منگوائے، اے آر یو نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجا۔
طویل سماعت کے دوران سربراہ بینچ نے کہا کہ انجینرنگ کے الزامات لگتے ہیں، مجھے افسوس ہے کہ اس میں ہمارے ادارے کو استعمال کیا گیا ہے۔
اسی دوران بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم کے پاس نئی وزارت بنانے کا اختیار ہے، نئی ایجنسی بنانے کا اختیار کدھر ہے، اس پر فروغ نسیم بولے کہ وزیراعظم کو کوئی بھی چیز کابینہ کو بھیجنے کا اختیار ہے، جس کے جواب میں جسٹس مقبول باقر نے یہ کہا کہ وزیر اعظم کے اختیارات کسی قانون کے مطابق ہوں گے۔
سماعت کے موقع پر حکومتی وکیل کے جواب پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اثاثہ جات وصولی یونٹ (اے آر یو) وفاقی حکومت کیسے ہوگئی، اے آر یو نے ایف بی آر سے ٹیکس سے متعلق سوال کیسے کیا، یونٹ کسی شہری کو قانون کے بغیر کیسے چھو سکتا ہے۔
جائیدادوں کی معلومات اوپن سورس سے آئی ہیں، فروغ نسیم
اس دوران اپنے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے فروغ نسیم نے یہ بات کی کہ جائیدادوں کی معلومات اوپن سورس سے آئی ہیں، برطانیہ کہتا ہے جائیداد کی معلومات اوپن ہے ہم سکریسی کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں، جو معلومات عوام کی دسترس میں ہو وہ خفیہ نہیں ہے۔
حکومتی وکیل کی بات پر جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ جائیداد کی معلومات کس طریقے سے حاصل کی گئی، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جائیداد کی معلومات کوئی سکریسی نہیں ہے۔
اسلامی تاریخ کا حوالہ
اس موقع پر فروغ نسیم نے اسلامی تاریخ کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ حضرت علیؓ کے مطابق جج کی سرگرمیاں جاننے کے لیے انہوں نے جاسوسی کا نظام بنایا تھا، قاضیوں کے معاملات کی خبر گیری اسلامی تاریخ سے بھی رکھی جاتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی قانونی نقطہ سے ہم اپنی آنکھیں نہیں موڑ سکتے، آئین کہتا ہے کہ تشریح کے لیے اسلامی شریعت کو دیکھا جائے، اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ سے بھی کُرتے کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ سے بڑا نہیں۔
سماعت کے دوران منی ٹرین کی بات کرتے ہوئے فروغ نسیم نےکہا کہ کسی قسم کی منی ٹریل نہیں دی گئی، عدالت نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کی تجویز دی تو انکار کر دیا گیا، درخواست گزار کہتے ہیں کہ دھرنے کے فیصلے کی وجہ سے کچھ حلقے خوش نہیں۔
اس پر جسٹس مقبول باقر بولے دھرنے کے کیس کا فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا، ساتھ ہی جسٹس منصور نے کہا کہ نظر ثانی کے مقدمے میں دونوں ججز کا ذکر نہیں۔
تاہم جسٹس مقبول باقر نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ الزام ہے کہ نظر ثانی مقدمے میں جج کو ہٹانے کی بات کی گئی۔
ہماری نفسیات بن چکی ہے، ہم سج سننا پسند نہیں کرتے، جسٹس مقبول
بینچ کے اراکین کے ریمارکس کے ساتھ ہی سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا دھرنے کے فیصلے سے آسمان گر پڑا، اگر نظر ثانی خارج ہوتی ہے تو کیا آسمان گر پڑے گا۔
ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر نے یہ ریمارکس دیے کہ ہماری سائیکی (نفسیات) یہ بن چکی ہے کہ ہم سچ سننا پسند نہیں کرتے، اپنا کام کرنے کی بھی آزادی نہیں دی گئی ہے۔
اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ درخواست گزار کے تمام الزامات بے بنیاد ہیں، مجھ پر اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور پر لگائے جانے والے الزامات غلط ہیں، اس کے علاوہ ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دینا درست نہیں۔
قانون سے باہر کام میں حکومت کی بدنیتی نظر آئے گی، عدالت
وکیل کی بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بدنیتی میں پس پردہ مقصد ہونا چاہیے، پس پردہ ایسا مقصد جو قانون سے باہر ہو، قانون میں کچھ اقدام ہیں جو بدنیتی پر انحصار کرتے ہیں، بدنیتی میں آسانی سے نہ الزام ہٹ سکتا ہے نہ ثابت ہو سکتا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت کی بدنیتی نظر آئے گی جب قانون سے باہر کام ہوگا، لگتا ہے کچھ الماری میں پڑا تھا جس کے استعمال کرنے کا انتظار تھا، جس پر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ وحید ڈوگر کی شکایت میں 3 ججز کے خلاف الزام تھا، یہ دلیل درست نہیں کہ ریفرنس کی منظوری کابینہ سے لینا ضروری تھی، آرٹیکل 209 میں وفاقی حکومت کا ذکر نہیں ہے۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست گزار کی دلیل ہے کہ جج کو ہٹانے کا معاملہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، دلیل دی گئی یہ معاملہ کابینہ میں جانا چاہیے تھا، جس پر فروغ نسیم بولے کہ جج کے تقرر کا جائزہ کابینہ نہیں لیتی، فروغ نسیم کی بات پر بینچ کے سربراہ نے کہا کہ جج کے تقرر کا طریقہ ہی مختلف ہے۔
اپنے دلائل میں فروغ نسیم نے کہا کہ صدر مملکت، وزیراعظم کے مشورے پر عمل کے پابند ہیں، جس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ دلیل تسلیم کرلیں تو صدر مملکت کے اعتراض پر دوسری مرتبہ مشورے کی کیا ضرورت ہے، ریفرنس کی سمری پر رائے صدر مملکت نے آزادانہ طور پر طے کرنی ہے۔
صدر مملکت کو رائے بنانے کی ضرورت نہیں ہے، جسٹس مقبول باقر
جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ سیکرٹری قانون سے لے کر اوپر تک سب نے اپنا دماغ استعمال کیا، اس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ صدر مملکت کو رائے بنانے کی ضرورت نہیں ہے، صدر صرف اپنا ذہن استعمال کرتے ہیں، صدر کے سامنے کوئی مواد نہیں تھا، الزامات پر مبنی دستاویزات تھیں۔
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہ کہ ہم نے آج جج کی اہلیہ کا مؤقف بھی سننا ہے، جس پر جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ عدالت کا حکم میں نے پہنچا دیا تھا، اہلیہ الزامات کے حوالے سے جواب دیں گی، امید کرتا ہوں اہلیہ کا جواب زیادہ طویل نہیں ہوگا۔
جس پر سربراہ بینچ نے پوچھا کہ کیا اہلیہ صرف جائیداد کے حوالے سے جواب دیں گی، اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ اہلیہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دیں گی، میں اہلیہ کا وکیل نہیں ہوں میری حیثیت پیغام رسانی کی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا، ساتھ ہی کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ساڑھے 3 بجے بیان ریکارڈ کروائیں گی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس
واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ گزشتہ برس سال میں شروع ہوا تھا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔
اس حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔
صدر مملکت کو اپنے دوسرے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا۔
جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 2 ریفرنسز میں شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیداد ظاہر نہ کرنے کے صدارتی ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا تاہم یہ ریفرنس بعد میں خارج کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں7 اگست 2019 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف ریفرنس ذاتی طور پر چیلنج کیا تھا جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ میرے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ میری درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔
صدارتی ریفرنس سے متعلق مختلف درخواستوں پر سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس کے تحلیل ہوجانے کے بعدعدالت عظمیٰ کے 10 رکنی فل کورٹ نے 14 اکتوبر کو سماعت کا آغاز کیا تھا جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔