سندھی ایسوسی ایشن آف شمالی امریکہ(سنا) امریکہ اور کینیڈا میں بسنے والے پاکستانی سندھیوں کی فلاحی سماجی اور کلچرل تنظیم ہے جو کہ گزشتہ 33سالوں سے یہاں امریکہ میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے یہ تنظیم پاکستان میں خصوصا سندھ میں فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور ہر سال جولائی کے ماہ میں امریکہ کی مختلف ریاستوں میں سے کسی ایک شہر کا چنا کر کے وہاں پر کنونشن منعقد کرتی ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ 33سالوں سے مسلسل جاری ہے
اس بار ہونے والا کنونشن امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں منعقد کیا گیا یہ شہر ٹی وی اور فلمی صنعت کے مرکز کے بطور پہنچایا جاتا ہے جس کی آبادی 98لاکھ 18ہزار نفوس پر مشتمل ہے یہاں پر تفریحی مقامات یونیورسل اسٹوڈیو،پیرامائونٹ پیکجز،وارنر برادر ،ڈزنی لینڈ،ہالی ووڈ،واک آف فیم انتہائی نمایاں مقامات ہیں کنونشن میں پاکستان بھارت،امریکہ،کینیڈا اور یورپ سے سینکڑوں مندوبین نے شرکت کی جبکہ کنونشن کی میزبانی کے فرائض سنی پہنور اور ان کی ٹیم نے سرانجام دئیے۔
مزکورہ تنظیم عوام الناس یہاں رہنے والے پاکستانی سندھیوں میں سیاسی ،سماجی،ادبی،ثقافتی،تاریخی شعور بیدار کرنے کیلئے ان شعبوں میں موجود ماہرین کر ہر سال اپنے کنونشن میں مدعو کرتی ہے تاہم مزکورہ کنونشن میں پہلی بار اس تنظیم نے اپنے کسی بھی پروگرام میں پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی سیاسی رہنما کو مدعو نہیں کیا گیا ۔جبکہ پیپلز پارٹی سندھ کے کئی سنیئر رہنمائوں اور صوبائی وزیروں کی دلی خواہش تھی کہ سنا ان کو کنونشن میں مدعو کر کے بولنے کاپلیٹ فارم مہیا کرے لیکن تنظیم کے رہنماں نے خصوصا پیپلز پارٹی کے ان رہنمائوں سے معذرت کر لی انکو کہا گیا کہ آپ سو بسماللہ شرکت کریں مگر آپ کو بولنے کاپلیٹ فارم مہیا نہیں کیا جائے گا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے رہنما اس کنونشن سے آئوٹ نظر آئے،پیپلز پارٹی کے کئی حمایتی یہاں نظر آئے مگر ان کی حمایتی صرف نجی کھچریوں تک ہی محدود رہے۔سندھی رہنمائوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کی کرپشن کی وجہ سے ہی سندھ تباہی کے دہانے پر ہے جس کو دنیا بھر میں رہنے والا ہر سندھی محسوس کر رہا ہے جبکہ اسکائپ کے ذریعہ تعلیمی سیشن میں بھی معروف اسکالر اور رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر مہتاب اکبر راشدی نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کو بھیک پروگرام سے تعبیر کیا۔ ۔کنونشن کا موضوع اس سال بچیوں کی تعلیم اور اس کی اہمیت تھا۔کنونشن کے پہلے روز سنا کے مرکزی صدر محمد علی مہر،جنرل سیکرٹری خالد میمن،نائب صدر غلام محی الدین اور دیگر نے مندوبین کا خیر مقدم کیا جبکہ پہلے سیشن کا افتتاح سنا کے مرکزی صدر محمد علی مہر نے شاہ عبدالطیف رح کے کلام سے شروع کیا۔ادبی سیشن میں فرید بھٹو،ماہین ہیسبانی،مٹھل قاضی،آغا پیر محمد،یاسین خمسیانی اور دیگر نے ادب کی تاریخ اور شاعری پر تبادلہ خیال کیا۔بعدازاں دوسرے سیشن میں تعلیم کے فروغ اور میڈیا کے کردار پر مقررین اشفاق آزار،قاسم راجپر،آغا پیر محمد،ذاکر بلو،ذوالفقار قادری اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔شام کے وقت کراچی اور لاس اینجلس میں موجود ادیبوں اور دانشوروں اور قلم کاروں کی ایک وڈیو کانفرنس منعقد ہوئی جس میں معروف اسکالر اور رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر مہتاب اکبر راشدی،ڈاکٹر سلیمان شیخ،غزالہ درخشاں میمن،مٹھل وقاصی، وحید، محمد علی مہر، نثار صدیقی، عزیز ناریچو، عبدالرحمان سومرو،غلام محی الدین میمن، حسن لغاری، جمیل دائودی اور دیگر مندوبین نے حصہ لیا اس موقع پر پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ سندھ کی عورت دوہری غلامی کا شکار ہے وہ سخت گرمیوں میں کاشت کرتی ہے مگر اس وقت مرد کی غیرت نہیں جاگتی کیونکہ یہ مرد کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ میری نظر میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھیک پروگرام ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں فرسودہ روایتوں کے خلاف عرفانہ ملاح اور امر سندھو جیسی بہنیں آگے آئیں اور وہ اب بھی جدوجہد کر رہی ہیں۔
خاتون رہنما غزالہ کا کہنا تھا کہ جب تک معاشرہ کو تبدیل نہیں کیا جائے گا تب تک عورت کو آزادی نہیں ملے گی۔ڈاکٹر سلیمان شیخ نے کہا کہ بنیادی اہم چیز تعلیم ہے ہمیں اپنی بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا ہو گا۔وحیدہ مہر نے کہا کہ میرے والد درزی کا کام کرتے تھے انہوں نے مجھے پڑھایا لکھایا اور تعلیم دلوائی یہی وجہ ہے کہ آج میں زیسٹ جیسے ادارے میں اہم عہدے پر فائض ہوں۔سنا کی رہنما درخشاں میمن نے کہا کہ سنا عورتوں کو جدید تعلیم و تربیت دینے کی کوششوں میں مصروف ہے اور ہماری نظر میں عورت کی تعلیم سے ہی سندھی معاشرہ آگے مستقبل میں ترقی کر سکتا ہے۔اس سیشن کے بعد خواتین کا پروگرام دوہری پیش کیا گیا جس میں خواتین نے بھر پور حصہ لیا انکو کھیل کود اور تفریح کے مواقع فراہم کیے گئے جس میں خواتین نے سہرے بھی گائے جبکہ میڈیکل سیمینار سمیت سنا کے مختلف فلاحی پروجیکٹ، فنڈریزنگ ایونٹ سمیت متعدد پروگرام شامل تھے۔آنے والے مندوبین کیلئے پکنک کا پروگرام بھی مرتب کیا گیا اور تمام افراد نے الراڈو پارک میں پکنک کی اور کھیل و کود اور تفریح کے پروگراموں میں حصہ لیا ۔جس میں سنا کے رہنمائوں اور مندوبین جس میں محمد علی مہر،خالد میمن،مہرین ہسبانی،فرید بھٹو،ثریا پہنور،ڈاکٹر مٹھل وقاصی،ڈاکٹر حفیظ عباسی،آصف سومرو،ممتاز لانگا، حسن شیخ،حینف سانگی،فاروق عزیز،ظفر آغا،علی حسن بھٹو،کومل بھٹو، ذاکر بلو، صادق صلاح الدین،وسعت اللہ خان،شبنم بلوچ،ڈاکٹر ایوب شیخ،ڈاکٹر قاسم راجپر،اشفاق آزر،نثار کھوکھر،امتیاز میر،ذوالفقار قادری،معظم بھنگر،امیدعلی لغاری،جمیل دائودی فیض اللہ عباسی اور دیگر نے حصہ لیا اس موقع پر سنا کے مرکزی صدر محمد علی مہر کا کہنا تھا کہ اگر سندھ کو ایماندار قیادت نصیب ہوتی تو یہ سندھ کو ایک نیا رخ دے سکتی تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا مگر سندھ سے باہر رہنے والے سندھی ابھی بھی مایوس نہیں ہیں انکو آسمان پر چھائے ہوئے سیاہ بادلوں کا احساس ہے لیکن ہم نئی نسل کے ذریعہ اس کا راستہ بھی تلاش کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم سندھ کے طالب علموں کو آگے لانے کیلئے ان میں اسکالرشپ دینے کا سلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اسی سال بھی سنا 60طلبہ و طالبات کو اسکالر شپ مہیا کرئے گی۔انہوں نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی نے علم کی رسائی کو آسان بنا دیا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اس نئے ارتقائی کی عمل سے جڑنا ہو گا اور تبدیلی اسی صورت میں ممکن ہو گی جب ہم سندھ کیملک بنیں گے اور سندھ کی ہر چیز کو اپنی چیز سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت کریں گے ۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس نثار صدیقی جیسے ایماندار کردار موجود ہیں جن کے پاس اہلیت اور قابلیت ہی سفارش ہے۔سنا کنونشن میں فلاح و بہبود کے کاموں کے رہنما ظفر آغا نے سنا کے اراکین پر زور دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اسکالر شپ دینے میں تعاون کریں اس موقع پر شبنم بلوچ،صادقہ صلاح الدین اور دیگر نے رپورٹ پیش کیں،سنا کی جنرل باڈی اجلاس میں سنا کی جانب سے سندھ میں گمشدہ قومی کارکنوں کی بازیابی سمیت دیگر مطالبات پر مشتمل 14قراردادیں اتفاق رائے سے منظور کیں۔
کنونشن کے آخری روز پکنک کے فوری بعد آنے والے مندوبین کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔اس موقع پر کمیونٹی کی ایسی شخصیات کو جنہوں نے فلاح و بہبود کے کاموں میں حصہ لیا اور عوام الناس کی مدد کی ان کو اسٹیج پر بلایا گیا اور ایوارڈ پیش کیے گئے۔امریکہ میں رہنے والے حیدرآباد سندھ کے ڈاکٹر رفعت انصاری اور ان کی اہلیہ زریں انصاری بھی ایوارڈ لینے والے افراد میں شامل تھے۔جنہوں نے حال ہی میں امریکہ کی نارٹڈم کیتھک یونیورسٹی کو 15ملین ڈالر ( ایک ارب آٹھ کڑوڑ پاکستانی ) کی رقم کا ایک بڑا عطیہ دیا۔دیگر ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں تھرپارکر کی معذوور آسو کولہی بھی شامل تھیں جن کو تھر پارکر کی ملالہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جنہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اسکول کے ذریعہ سینکڑوں بچیوں کو تھرپارکر میں تعلیم دی۔جبکہ دیگر افراد میں صادقہ صلاح الدین،حسینہ مری،عاصم علی،حمیرا بچل اور دیگر شامل تھے۔
بعدازاں محفل موسیقی میں پاکستان کی معروف گلوکارہ حمیرا چنا اور ارشد محمود نے اپنے بھرپور فن کا مظاہرہ کیا جبکہ لاس اینجلس میں پاکستان کے قونصل جنرل عبدالجبار میمن دیر سے تقریب میں آئے تو درمیان میں وقفہ کے دوران انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر سے آئے ہوئے سندھیوں کا ایک چھت کے نیچے جمع ہونا کسی معجزہ سے کم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سنا میں خطاب کی مجھے دعوت ملی میں نیسنا کے صدر کو کہا کہ میں ایک کمزور سندھی آفیسر ہوں جبکہ مجھے محکمہ جاتی اجازت نامہ 3دن پہلے ہی موصول ہوا ہے انہوں نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف سے انہوں نے سندھیوں کے احساس محرومی کا ذکر کیا تھا جس پر انہوں نے کہا تھا کہ سندھ میں وزیراعلی سے سیکرٹری اور90فیصد افسران سندھی ہیں اگر وہ سندھ میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کرتے تو ہمارا اسمیں کیا قصور ہے۔پنجاب کا کیا قصور ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے خاندان میں پانچ افراد سول سروسز میں ہیں اور محنت کے بل بوتے پر ہم سب اس مقام پر پہنچے ہیں اور اسی ملک میں ہم نے جگہ بنائی ہے انہوں نے کہا کہ اگر نیت درست ہوں اور پاکستان میں لیڈر شپ کو یہ پیغام جائے کہ ہمارے صوبہ پر رحم کرو تو کام بنے گا انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ پی پی کو ووٹ دیا لیکن پی پی دور میں مجھے کبھی کوئی پوسٹنگ نہیں ملی، اور آج وہ افراد جن کو ہم مورز الزام ٹھہراتے تھے کہ پنجابی ظلم کرتے ہیں ان کی ہی بدولت آج میں سر فخر سے بلند کرتے ہوئے آپ کے سامنے کھڑا ہوں
پاکستان کے قونصل جنرل عبدالجبار میمن نے کہا کہ آج ان کا دل چاہ رہا ہے کہ ہر موضوع پر کھل کر بات کی جائے انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا کلچر رہا ہے کہ جب ہم خود کچھ نہیں کر سکتے تو الزام دوسروں پر دھر دیتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ سندھ میں جو مسائل ہیں ان کے ذمہ دار ہم خود ہیں اس کے بعد انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ ان کی سوچ غلط تھی حتی کہ نشنل فنانس کمیشن کا چیئرمین بھی سندھی ہے اگر وہ کچھ نہیں کرتے تو اس میں دوسروں کی کیا غلطی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں مسائل کے ذمہ دار ہمارے سندھی لیڈران اور بیورکریٹ ہیں انہوں نے کہا کہ اگر کسی قوم کو ختم کرنا ہو تو اس کی تعلیم کو ختم کر دیا جاتا ہے۔سندھ میں تعلیم کا جو حال ہے اس کو دیکھ کر ان کو رونا آتا ہے انہوں نے کہا کہ مسائل کے حل کیلئے کام کرنا ہوتا ہے اور قوم کو کسی معجزہ کا انتظار نہیں کرنا ہوتا انہوں نے کہا کہ میں بھی آپ کے سامنے ہوں میں بھی اسی معاشرہ کا حصہ ہوں اگر میں ان دکھ اور تکالیف سے نکل کر یہاں تک پہنچ سکتا ہوں تو آپ بھی اس سے نکل سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی دور حکومت میں ان کو ہمیشہ کھڈے لائین لگایا گیا اور ایک پنجابی وزیراعظم نے ان کو امریکہ میں تعینات کیا لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنا خود احتساب کریں اور جو لوگ مسائل کا حصہ ہیں ان کا احتساب کریں انہوں نے کہا کہ میرا نعرہ جیئے سندھ تو ہے ہی کیونکہ انشا اللہ میری قبر بھی اپنے والد کے قریب ہی ہو گی تاہم میرا نعرہ یہ ہے کہ جیئے پاکستان،جیئے سندھ
۔کنونشن سے سنا کے مرکزی صدر محمد علی مہر ،خالد میمن،سنی پنہور،غلام محی الدین میمن،ظفر آغا،ڈاکر بلو اور دیگر نے خطاب کیا۔قبل ازیں تین روز جاری رہنے والی اس کنونشن میں تعلیم صحت،تہذیب،ادب و ثقافت کے حوالے سے مختلف سیشن منعقد کیے گئے اور آئندہ سال کیلئے مختلف پروجیکٹ بھی مرتب کیے گئے جس مں اشفاق آذر،قاسم راجپر،آغا پیر،ذاکر بلو،ذوالفقار قادری،مٹھل وقاصی،ڈاکٹر یاسمین خمیسانی،درخشاں میمن،ظفر آغا،خالد میمن،محمد علی مہر،نثار صدیقی،عزیز ناریجو،عبدالرحمان سومرو،فرید بھٹو دیگر نے حصہ لیا جبکہ تعلیمی سیشن میں کراچی اور لاس اینجلس میں موجود ادیبوں،دانشوروں اور قلمکاروں کی ایک وڈیو کانفرنس میں پاکستان کی معروف اسکالر اور رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر مہتاب اکبر راشدی اور دیگر نے حصہ لیا۔آنے والے مندوبین کو لاس اینجلس پارک میں پکنک بھی کرائی گئی جبکہ محفل موسیقی کی محفل سے پاکستان کے معروف گلوکاروں حمیرا چنا اور ارشد محمود نے اپنے بھر پور فن کا مظاہرہ کیا۔کنونشن کے تمام تر انتظامات کمیٹی کے چیئرمین سنی پنہور اور ان کی ٹیم نے سر انجام دئیے۔کانفرنس میں ورلڈ سندھی کانگریس کے رہنمائوں امید علی لغاری،صغیر شیخ،رحمان کاکے،سنا کیسابق صدر جمیل دائودی،معظم بھنگر،فیض اللہ عباسی، جی ایم سید کی پوتی پارس سید ،کمشنر تھرپارکر شفیق میسیر ،راجہ زاہد اختر خانزادہ،مرتضی مورائی،علی حسن بھٹو،نثار مہر اور دیگر نے بھی شرکت کی تنظیم سندھی ایوسی ایویشن آف نارتھ امریکہ(سنا) کے جنرل باڈی اجلاس میں 14قراردادیں اتفاق رائے سے منظور کی گئیں ۔سنا کے جنرل باڈی اجلاس میں سندھ میں گمشدہ ہونے والے کارکنوں کی بازیابی سندھ میں بدانتظامی اور کرپٹ وڈیرائی حکومتی نظام کی مذمت کی گئی پاکستان کے آئین میں ترمیم کر کے سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا جبکہ اقلیتی برادری کی خواتین کو جبرا مذہب تبدیل کرانے اور ان سے شادی کرانے والے عمل کی مذمت کی گئی جبکہ مذہبی انتہا پسندی اور سندھ سے ہونے والے ظالمانہ سلوک کے خلاف 14نقاطی قرار داد میں کہا گیا کہ پاکستان کی ریاست1940 کی قرار داد (قرار داد لاہور) پر عمل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے جس کی وجہ سے صدیوں کے درمیان عدم توازن اور نا انصافی دن بدن بڑھ رہی ہے سنا کے اراکین سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک سندھی افراد کو ان کی ثقافتی،سیاسی،سماجی،اقتصادی اور قومی حقوق سے محروم رکھ کر ان کے صوبہ کو ایک کالونی کے بطور چلایا جا رہا ہے سنا سمجھتی ہے کہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا ریاست کا کام ہے وفاقی اور صوبائی حکومت سندھ کے اندر خصوصا اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا ریاست کا کام ہے وفاقی اور صوبائی حکومت سندھ کے اندر خصوصا اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں قانون لاگو کرنے والے ادارے سیاسی کارکنوں کو مسلسل اغوا کر رہے ہیں اور ماروائے عدالت قتل میں ملوث ہیں۔سنا نے سندھ کی نااہل کرپٹ اور جاگیردارانہ ذہنیت رکھنے والی حکومت کی کارکردگی پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ حکومت مسلسل سندھ کے افراد کو صحت،تعلیم،امن و امان،روز گار جیسی بنیادی سہولیات سے محروم رکھتی چلی آ رہی ہے تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے سنا کی جانب سے مذکورہ قراردادیں اکثریت رائے سے منظور کی گئیں۔1شمالی امریکہ میں موجود دنیا کے تمام افراد کو چاہتے کہ وہ دنیا میں بڑھنے والے عدم برداشت دہشتگردی کے خلاف اپنی کوششوں کو تیز کر دیں۔2وفاقی حکومت نسل پرستی،دہشتگردی کو ختم کرائے اور معاشرہ میں برابری کی بنیاد پر کسی کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے۔3امریکی حکومت امیگریشن پالیسی پر نظر ثانی کرائے اور امیگرنٹ کمیونٹی کی بے چینی کو دور کرئے۔4سنا کے اراکین کو چاہیے کہ وہ مقامی سطح پر عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں میں حصہ لیتے ہوئے اپنے آپ کو ایک لائق اور قابل فخر شہری بنائیں۔5پاکستانی پارلیمنٹ کو چاہیے کہ وہ 1940 کی قرار داد کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین میں ترامیم کرئے۔6پاکستانی حکومت پارلیمنٹ کے ذریعہ آئین میں ترمیم کر کے سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دے۔7حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے۔8وفاقی صوبائی حکومت خواتین کی آزادی اور ان کے حقوق کا تحفظ کرئے ،جبکہ خواتین کو برابری کے حقوق دئیے جائیں۔9وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔سندھ کے اندر جاری جبرا مذہب تبدیل کرا کے شادیاں کرانے اور ان کی اس وجہ سے ہونے والی نقل مکانی کے سلسلہ کو ختم کرائے۔10وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ جعلی مقدمات کے اندارج کے سلسلہ کو بند کریں۔اغوا شدہ قومی کارکنوں کو آزاد کیا جائے۔جبکہ ان کو عدالتوں میں پیش کر کے صفائی کا موقع فراہم کیا جائے۔11سندھ اور پاکستان کے تمام علاقوں میں مذہبی،نسلی فسادات اور دہشتگردی کے واقعات کی سخت لفظوں میں مذمت کی گئی۔12پاکستان کے تمام علاقوں میں پھیلے ہوئے اور دہشتگردی میں ملوث افراد اور گروہوں اورپارٹیوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے حکومت تمام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔13تمام اداروں میں نااہل اور کرپٹ نوازے گئے حکومتی افسران کے خلاف فوری کاروائی کی جائے۔14حکومت فوری طور پر روزگار کے مواقع فراہم کرئے اور نئے مواقع پیدا کیے جائیں۔عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کیلئے کام کرئے۔سندھ میں تعلیم اور صحت کے اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے جس کے بعد فوری اقدامات کئے جائیں۔
قبل ازیں کنونشن کمیٹی کے چیئرمین سنی
پنہوز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں بہت سی چیزوں پر کام ہو رہا ہے کئی پروگرام مستقل بنادوں پر چل رہے ہیں تاہم سیلاب اور قدرتی آفات کی صورت میں سنا ایمرجنسی فنڈز بھی فراہم کرتی ہے جبکہ 1999 سے اسکالر شپ کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہیں اور50/60ہزار ڈالر سالانہ اسکالر شپ پر خرچہ کیے جاتے ہیں اور ایسے قابل نوجوان طلبہ وطالبات کو دئیے جاتے ہیں جو کہ ذہین اور لائق ہیں مگر ان کے والدین تعلیم کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔سنا کے جنرل سیکرٹری خالد میمن کا کہنا تھا کہ تعلیم کے علاوہ صحت کے شعبوں میں بھی سنا کافی کام کر رہی ہے ان دیہاتیوں میں جہاں ہیپاٹائٹس بی اور سی موجود ہے وہاں کے لوگوں کو ہم سروسز مہیا کرتے ہیں SSDPہمارا ایک پروجیکٹ ہے جو کہ پورے سندھ کے تمام اضلاع میں پھیلا ہوا ہے اور ہم نے تقریبا 27فیصد سندھ کو کور کر کے عوام الناس میں اس بیماری سے متعلق شعور کا اجاگر کیا ہے۔تعلیمی کمیٹی کے آغا ظفر کا کہنا تھا کہ جن طلبہ و طالبات کو ہم اسکالر شپ دیتے ہیں ان میں مہران انجئیرنگ یونیورسٹی لیاقت میڈیکل کالج،آئی بی اے سکھر سمیت ایسے دیگر تعلیمی ادارے شامل ہیں جو کہ کوالٹی ایجوکیشن دیتے ہیں اور ان کی تعلیم پروفیشنل ڈگری کیلئے ہوتی ہے جن کو ہم فرسٹ ائیر سے لے کر چار سال تک اسکالرشپ مہیا کرتے ہیں جبکہ لڑکیوں کو خصوصی توجہ دی جاتی ہے اس اسکالر شپ میں رنگ و نسل زبان سے بالا امتیاز ہر کسی کو میرٹ پر یہ اسکالر شپ دی جاتی ہے ان کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعہ ہم تبدیلی لانے کے خواہمشند ہیں تاہم یہ کم ہے لیکن کوشش جاری ہے۔
اس موقع پر اسکالر شپ حاصل کرنے والی ایک بچی مشعال بروہی کے والدین کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی کو اسکالر شپ ملی اس پر وہ خوش ہیں
لاس اینجلس کے ہلٹن لانگ بیچ ہوٹل میں ہونے والے اس کنونشن میں عید جیسے رنگ نظر آئے مرد و خواتین نے دیدہ زیب لباس زیب تن کیے اپنے وطن سے محبت کا اظہار کیا۔اجرک اور ٹوپیاں پہن کر ہو جمالوں اور دیگر لوک گیتوں پر بھرپور رقص کیا۔امن کے گیت گائے،ثقافتی اسٹال لگائے گئے،اور پورا ہوٹل ایک میلہ کا سماں پیدا کر رہا تھا جہاں پر آنے والے دیگر مہمان بھی محضوض ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔