کچھ ہی روز ہوئے کہ میں نے پاکستان سے آنے ہوئے ایک با خبر صحافی دوست سے سندھ کے شب و روز پر بات چیت کرتے ہوئے ذوالفقار جونیئر کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: “ذوالفقارعلی بھٹو جونیئرسندھ کے جنگل، پہاڑ اور دریا کا سفر کرتا دیکھا گیا ہے۔ عام لوگوں کی سنگت میں کبھی دیکھو تو گمنام گندی گلیوں کی دیواروں پر دلکش مصوری کرتا پھر رہا ہے تو کبھی میلے اور ملاکھڑے گھوم رہا ہوتا ہے۔ سنا ہے اس نے تھر میں لتاڑا پچھاڑے ہندو لوگوں کی زندگی بھی مصور کی ہے۔ اس نے ڈھاٹکی زبان بھی سیکھ لی ہے۔” میں نے اپنے دوست صحافی سے کہا کہ مجھے ذوالفقارجونیئر کا یہ فقیری فنکارانہ رنگ پسند آیا۔ تو اس پہ میرے دوست نے کہا “فقیری یہ کر رہے ہیں لیکن ان کے نام پر بادشاہی اور لوگ کر رہے ہیں۔”
لیکن اگلے روز ذوالفقارعلی بھٹو جونیئر کی سوشل میڈیا پر سات منٹ کی مختصر وڈیو نے ایک تہلکہ سا مچا دیا۔ دنیا حیران پریشان۔ لیکن مجھے یونانی المیہ کہانیوں اور روم کے بادشاہوں جیسی زندگی گزارنے والے بھٹو خاندان کے اس درویش اور فنکار نوجوان کے ایسے جرات مندانہ قدم پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے بھٹو نے اپنے دل کا کہا مانتے ہوے وہ بات کہہ دی جو اس سے پہلے والے بھٹو کہنے کی جرات نہ کرسکے تھے۔ یہاں میری مراد ذوالفقارجونیئر کی جنسی ترجیحات یا سیکسوئل اوریئنٹیشن پر بحث یا اس پر فتویٰ دینا نہیں، پر وہ بات ہے جو انہوں نے کرنے کی جرئت کی ہے۔ وہ نعرہ مستانہ جو اس خوبصورت نوجوان نے لگایا ہے۔ ویسے ذوالفقارجونئیر کی یہ وڈیو عام ہونے کے بعد پیارے پاکستان میں ہر شخص جنسیاتیات اور جنسی صنفی علوم کا ماہر اور چلتی پھرتی آکسفورڈ ڈکشنری بنا ہوا ہے۔ اس وڈیو پیغام کی شروعات میں دوران سفر اس کی اپنی ماں سے ٹیلیفون گفتگو سے ہوتی ہے جس پر اسے طیارے کا میزبان طیارے سے اتر جانے کا کہتا ہے کہ اسکی دوران گفتگو چند الفاظ عربی کے سنے گئے تھے۔ اسلاموفوبیا یعنی مغرب میں مسلمانوں کے خلاف بنا ہوا ان کا بگڑا تصور اور ان کے خلاف نفرت پر چوٹ کی گئی ہے۔ “میرا نام ذوالفقارعلی بھٹو ہے اور میں ایک فنکار اور جنوبی ایشیائی مسلمان کوئیر ہوں۔” انگریزی لغت میں ہر برس دس ہزار کے قریب الفاظ داخل کرنے والی ڈکشنریوں نے کوئیر لفظ کے کئی معنی وضع کئے ہیں لیکن مغرب میں یہ بحث کب کی تھم چکی۔ اور کوئیر ہونے کی وہ ساری مفہوم متروک ہو بھی چکے۔ اب کوئیر لفظ کے معنی زیادہ تر جنسی اقلیتوں (لزبین، گے، بائی سیکسوئیل، ٹرانس جینڈرڈ، کوئیر، انٹرسیکسیوئیل)سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے متعلق بتائی اور مانی گئی۔ کوئیر آر فوکس (انہی برادریوں پر ایک شاندار فلم بھی ہے)۔ لیکن بش کے آج کے امریکہ میں جہاں عورتوں اور جنسی اقلیتیوں کی بڑی تعداد اس کے کئی اقدامات کے خلاف متحرک ہو گئی ہے تو ان لوگوں کا نیا نعرہ “کوئیر مزاحمت کا نام ہے” لگایا گیا ہے۔ اور یہ غلط بھی نہیں۔ مختلف اور مزاحمتی۔ یینظیر بھٹو کی سالگرہ والے دن اور جون کا مہینے میں جو دنیا بھر میں کوئیر لوگوں کی پرائڈ کا مہینہ ہے۔ ذوالفقار بھٹو جونیئر کے وقت کے انتخاب پر بھی داد دینی چاہیے۔
اس بات سے قطع نظر کہ ذوالفقارجونیئر کی جنسی ترجیحات کیا ہیں لیکن جو انہوں نے بات کی ہے وہ جنسی اقلیتوں اور عورتوں کے خلاف ہونے والے تعصبات کے خلاف ببانگ دہل کی ہے۔ اور سب سے بڑی بات اس نے مرد اور مردانگی کی ایک نئی لیکن فطری تصویر کشی کی ہے۔ اس نے اس سماج کے گھسے پٹے تصور کہ ” گت نہیں تے عورت نہیں، مچھ نہیں تے مرد نہیں” کو گل بوٹے لگائے ہیں۔ نفاست دی ہے۔ مردانگی نہ باڈی بلڈنگ کا نام ہے نہ سندھی ملاکھڑے کا۔ نہ رستم زمانی کا۔ مرد قلندر کا رقص سرمدی بھی تو ایک تصور ہے جس میں اس کا محبوب یا مرشد کامل ہوتا ہے۔ اس میں قباحت کیا ہے؟ قونیا میں رومی کے مزار کے احاطے میں جو جھومنے گھومنے والے درویش ہیں وہ بھی تو مرد ہیں۔
بھٹو جونیئر کی وڈیو دیکھتے ہوئے میں نے سوچا شاعر، عاشق، شہید اور درویش ایک ہی قوس قزح کے رنگ والے دھاگے سے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔
کھوڑی گارڈن یا ریگل کراچی پر پرانی کتابوں میں سے باڈی بلڈنگ سیکھیے نامی اردو کتاب میں کیلیفورنیا کے ماچو اور باکسر سابق گورنر آرنولڈ شوارزنیگر کی تصاویر سے لیکر سندھی ملاکھڑے میں مردانگی کے نام نہاد جوہر کو جنس کی جادوئی حقیقت میں بدلنا یا ںاخن پالش والے ہاتھوں سے میناکاری کا فریم پکڑ کر میناکاری کر کے اس بھٹو کے پوتے نے بتایا ہے کہ ہر شخص فقط آدم زاد نہیں، حوا جایا بھی ہے۔ ہر مرد کے اندر ایک عورت بھی ہے۔ اور اس کا عورت کے لباس میں ناچنا کیا اس صوفی برصغیر میں نئی بات ہے! بلھے شاہ یار کو منانے کو کس حد تک گئے۔ امیر خسرو نے نظام الدین کی شان میں اپنی شاعری میں عورت کی آواز کبھی پنہارن بن کر گایا تو کبھی بھٹیارن بنے۔ سرمد کا ابھی چند اور شاہ حسین کا مادھو لال۔ ہمارے عظیم صوفی سندھی شاعر شاہ لطیف بھٹائی نے تو نہ فقط عورت بن کر پر دکھی عورت کی چیخ بن کر شاعری کی ہے۔وہ سندھ ہند کے صحرائوں پہاڑوں جنگلوں میں “ادیوں عبداللطیف کہے” بنا ہوا تھا۔ مونث بن کر بات کی ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو جونیئر کے اس رندی راہ لینے کے بعد سندھ میں اس کے کئی حامیوں نے اس کی تقلید میں اس کی طرح دوپٹے سروں پر اوڑھ کر ہاتھوں میں میناکاری کا فریم پکڑ کر اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر دی ہیں ۔ یہ برصغیر میں مرد کا نیا تصور ہے جو عورت کی نسوانیت کا احترام کر رہا ہے۔ وہاں جہاں عورتیں ہزاروں میں غیرت کے نام نہاد تصور پر قتل ہوتی ہوں۔ پاکستان کے شہری بادشاہ کے اس پوتے نے واجد علی شاہ کی یاد دلا دی ہے۔
ذوالفقارجونیئر نہ پرانا بھٹو ہے نہ صوفی۔ وہ اکیسویں صدی یا دوہزاری کی دوسری دہائی میں اپنی جنسی شناخت کا کھلے عام اقرار اور اصرار کرنے والا کوئیر آرٹسٹ ہے جو اپنے ہم جنس یا جنس مخالف دونوں کی طرف کشش رکھنے والا ہوسکتا ہے اور ایسے لاکھوں کروڑوں لوگ ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے۔ ذوالفقار جیسے لوگ میری طرح کھل کر آئے ہیں جسے کمنگ آئوٹ کہا جاتا ہے۔ مسلم اور جنوبی ایشیائی اور پاکستانی سماج میں بہت کم ایسا ہوتا ہے۔ یہاں جب سندھ کا ایک وزیر اعلی زنانہ لباس یا ڈریگ میں راتوں کو رقص درویش کرتا تھا تو بلھے شاہ کے دیس کی انگریزی میڈیا میں اس کے خلاف کہانیاں شایع ہوئیں اور اسے ہٹا دیا گیا تھا۔ یہاں تو بیگم نوازش علی کا کرنل کاٹ دیا جاتا ہے۔
سب کچھ ہوتا ہے پر نہ بتائو اور نہ پوچھو کی بنیاد پر۔ اس پر پاکستانی سماج پر بحث ہونی چاہیے۔ بے زبان، بغیر چہرہ اور بغیر جنسی شناخت کے ایک خاموش بڑی اقلیت۔ اہم بات ذوالفقارعلی جونیئر کا کھل کر اپنی شناخت کا اتنا اظہار کرنا نہیں جتنا ان کا جنسی اقلیتوں اور عورتوں کے ساتھ ہونے والے جبر اور مسلمانوں سمیت دیگر کمیونٹیز کے ساتھ ہونے والی نسل پرستی پر اس کا بات کرنا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے دادا نے پاکستان کے پسے ہوئے طبقات کو زبان دی تھی۔ ہوسکتا ھے ذوالفقارجونیئر جنوبی ایشیا کی خاموش جنسی اقلیتوں کو زبان دے۔ میں اس کا کردار پاکستان سے زیادہ گلوبل اسٹیج پر دیکھ ریا ہوں۔ اچھی بات ہے کہ پاکستانی جنسی اقلیتیوں میں سب سے زیادہ پچھاڑی ہوئی اقلیت خواجہ سرائوں یا ہیجڑوں کو حکومت نے ان کی شناخت کے مطابق پہلا پاسپورٹ جاری کیا ہے۔