کراچی سے لاپتا ہوکر صوبے سے باہر پہنچنے والی نمرہ کاظمی اور دعا زہرہ کے کی سماعت کے دوران عدالت نے آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹاتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو دوسرا افسر تعینات کرنے کا حکم دے دیا۔
سندھ ہائیکورٹ کے دو رکنی بینج نے دعا زہرا اور نمرہ کاظمی کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی، آئی جی سندھ کامران فضل اور ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن عدالت میں پیش ہوئے۔
اس موقع پر دعا زہرا اور نمرہ کاظمی کے اہلخانہ بھی عدالت میں موجود تھے جبکہ نمرہ کاظمی اور اس کے شوہر کو پولیس نے عدالت میں پیش کیا۔
دوران سماعت نمرہ کاظمی کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم پہلے نمرہ کاظمی کا کیس سنیں گے۔
عدالت نے نمرہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ پڑھتی ہیں جس پر نمرہ نے عدالت کو بتایا کہ میں دسویں کلاس میں ہوں۔
جسٹس اقبال کلہوڑو نے نمرہ سے کہا کہ آپ کی عمر پھر اٹھارہ سال سے تو کم ہوگی، پڑھائی کی وجہ سے میری عمر کم لکھوائی گئی ہے، میرا ٹیسٹ کروایا جائے۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ سندھ میں قانون ہے کہ 18 سال سے کم عمر لڑکی شادی نہیں کرسکتی، کیا لڑکی کی عمر کے حوالے سے کوئی دستاویزات موجود ہیں؟
نمرہ سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپکا ٹیسٹ کرائیں گے شیلٹر ہاؤس بھیج رہیں، اگر آپکی عمر اٹھارہ سال ہوئی تو شوہر کے ساتھ جانے دیں گے۔
تاہم عدالت نے نمرہ کاظمی کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کروانے کے لیے انہیں شیلٹر ہوم بھیج دیا۔
دعا زہرا کی بازیابی سے متعلق درخواست پر ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ دعا زہرا خیبرپختونخوا کے علاقے ہزارہ یا مانسہرہ میں ہیں، ہم نے چھاپے مارے لیکن دس پندرہ منٹ پہلے انہیں اطلاع مل گئی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ لڑکے کے والد مالی ہیں، اب کہہ رہے ہیں ڈی آئی جی ان کی مدد کررہا ہے جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا ڈی آئی جی مدد کررہا ہے، پولیس والے اور کچھ وکلاء انکی مدد کررہے ہے۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا ہم ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کو حکم دے سکتے ہیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ وہاں کے افسران آئی جی سندھ کے ساتھ رابطے میں ہیں کہتے ہیں آج دے دیں گے کل دے دیں گے۔
اس موقع پر جسٹس آغا فیصل نے کہا کہ ہمیں پولیس بھی یہاں آکر یہی بتارہی ہے، یہ ہمارا کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے ایک بچی لاپتا ہے۔
جسٹس اقبال کلہوڑو نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں آپکی کا کام وہاں کے ڈی آئی جی وغیرہ کریں پچھلی سماعت پر تو خیبر پختونخوا پہنچا دیا تھا آج ہزارہ میں ہے بتا رہے ہیں کل کو کہیں گے افغانستان سے سگنل آرہے ہیں تو ہم کیا کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا صوبے کی پولیس اتنی نا اہل ہوچکی ہے، عدالت 21 دن سے احکامات جاری کررہی ہے پولیس بچی کو بازیاب نہیں کرائی تو کون بچی کو بازیاب کروائے گا
اس موقع پر پولیس حکام کا کہنا تھا کہ ہماری 4ٹیمیں اس وقت ہزارہ میں ہیں جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وہ لوگ اتنے طاقت وار کے کہ پولیس بچی کو بازیاب نہیں کرایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گڑھی حبیب اللہ کے علاقے میں چھاپہ مارا تھا لیکن ایک گھنٹے پہلے وہاں سے کہیں اور چلے گیے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ وسیم نامی وکیل لڑکے والوں کی مدد کررہا ہےجس پر جسٹس آغا فیصل نے ریمارکس دیے کہ جتنی کوشش عدالت کو مطمئن کرنے میں لگ رہی ہے ایک فیصد بھی بچی کی بازیابی کے لیے لگاتے تو بچی مل چکی ہوتی، جس کو بھی گرفتار کرنا ہے وہ اب ہائیکورٹ بتائے گا کہ کس کو حکم دیں اور وہ بازیاب کرائے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ بچی ہمارے صوبے میں ہوتی تو دو تین دن میں پیش کر دیتے۔
دوران سماعت جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے آخری میں موقع دیا تھا بچی بازیاب نہیں ہوئی ہے، ہم آئی جی سندھ کو شوکاز نوٹس جاری کریں گے اگر بچی کو جمعے تک پیش کردیا تو شوکاز نوٹس واپس لے لیں گے۔
جسٹس آغا فیصل نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ آپ کو افسران کی فکر ہوگی ہمیں عوام کی فکر ہے،
جسٹس اقبال کلہوڑو نے کہا کہ اگر بچی افغانستان بھی گئی ہوئی ہوتی تو ہم آپ کو کہتے ہیں کہ بازیاب کرائیں، جمعے تک سماعت ملتوی کررہے ہیں بچی کو بازیاب کرالیں گے تو آئی جی سندھ کو جاری شوکاز نوٹس واپس لے لیں گے۔
بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی سندھ کامران فضل کا کہنا تھا کہ ایک بچی نمرہ کاظمی کو بازیاب کروالیا ہے، دوسری بچی کو بازیاب کرانے کے لیے ٹائم دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنی کوششیں مزیڈ بڑھائیں گے، انویسٹی گیشن کے معاملات نہ پوچھیں، چھاپے مارے ہیں، 3،4 صوبوں میں چھاپے مارے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پریشراور نو پریشر ہماری ڈیوٹی ہے ہمارا جو کام ہے وہ کریں گے۔
بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کردہ تحریری حکم نامے میں عدالت نے آئی جی سندھ کامران افضل سے چارج لینے کا حکم دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہدایت جاری کی کہ آئی جی سندھ کا چارج کسی اہل افسر کو دیا جائے۔
عدالت نے کہا کہ ایم آئی ٹی سندھ ہائی کورٹ عدالتی احکامات نئے تعینات ہونے والے افسر کو پہنچائے اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اپنی رائے دے کامران افضل اس عہدے کے اہل ہیں یا نہیں ؟
ان کا کہنا تھا کہ تحریری فیصلے ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کو ہم انتظامیہ پر چھوڑدیں، آئی جی سندھ نے غیر حقیقی رپورٹ پیش کی جو مسترد کی جاتی ہے۔