پشاور/کوئٹہ: خیبرپختونخوا حکومت نے اسلام آباد میں احتجاج کے دوران جاں بحق ہونے والے تحریک انصاف کے کارکنوں کے لیے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ یہ احتجاج اس ہفتے حکومت کی کریک ڈاؤن کارروائی کے بعد ختم ہوا۔
یہ اعلان خیبرپختونخوا اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں کیا گیا، جس کی صدارت اسپیکر بابر سلیم سواتی نے کی۔ یہ اجلاس 2 دسمبر کو ہونا تھا لیکن واقعے کے پیش نظر جمعرات کی شب طلب کیا گیا۔
خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس
اسپیکر سواتی نے مظاہرین کے خلاف کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کے پرامن احتجاج کے آئینی حق کو چھین لیا گیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ غیر مسلح مظاہرین کو نشانہ بنایا گیا، گاڑیوں سے کچلا گیا اور بے جا طاقت کا استعمال کیا گیا۔
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جاں بحق کارکنوں کی لاشیں غائب ہیں اور لاپتہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے اس معاملے پر عالمی میڈیا کی کوریج کو اجاگر کیا اور مقامی میڈیا کی خاموشی پر تنقید کی۔
اسپیکر نے کہا کہ چیف منسٹر علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی پر بھی قاتلانہ حملے کیے گئے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے اراکین انور زیب اور ملک لیاقت کی گرفتاری کو جبر کی مثال قرار دیا۔
وزیر قانون آفتاب عالم آفریدی نے جاں بحق کارکنوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تین روزہ سوگ کا باضابطہ اعلان کیا، جبکہ اجلاس جمعہ کی شام تک ملتوی کر دیا گیا۔
بلوچستان اسمبلی کی پی ٹی آئی پر پابندی کی قرارداد
کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی نے وفاقی حکومت سے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی قرارداد منظور کر لی۔ یہ قرارداد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اراکین نے پیش کی، جس میں پی ٹی آئی پر فسادات بھڑکانے اور ریاست مخالف ایجنڈا اپنانے کا الزام عائد کیا گیا۔
اجلاس کے دوران جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی سمیت کئی جماعتوں نے قرارداد کی مخالفت کی اور واک آؤٹ کر دیا۔ اپوزیشن رہنما یونس عزیز زہری نے کہا کہ ایک پارٹی پر پابندی لگانے سے دیگر جماعتوں پر بھی یہی عمل دہرایا جا سکتا ہے۔
تاہم، قرارداد کے حامیوں، بشمول صوبائی وزیر بخت محمد کاکڑ، نے کہا کہ آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والی جماعت پر پابندی ناگزیر ہو جاتی ہے۔