سرچ انجن گوگل نے اردو شاعری میں محبت کے جذبات کو نہایت دلکش انداز سے پیش کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی سالگرہ کے موقع پر ڈوڈل تبدیل کر کے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
شاعرہ پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں جنہوں نے اردو ادب میں چاشنی گھولتے ہوئے اشعار میں محبت کی خوشبو بکھیری۔
نازک احساسات سے بھرپور لفظوں کو دلوں میں پرونے والی حساس شاعرہ نے نسوانی جذبوں کو نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا۔
الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنایا یہی وجہ ہے کہ دنیا آج بھی ان کی غزلوں اور اشعار کی دیوانی ہے۔
پروین شاکر نے اپنی پہلی نظم کی جِلد ’خوشبو‘ 1976 میں شائع کی تھی جس کے بعد ’خوشبو‘ کی اور بھی جِلدیں شائع کی گئیں اس کے علاوہ ایک اور تصنیف ماہ تمام کا سحر آج بھی مداحوں پر طاری ہے۔
خوشبوؤں کی شاعرہ 42 سال کی عمر میں 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں ٹریفک حادثے کا شکا ر ہونے کے باعث دنیائے فانی سے چل بسیں لیکن ان کی شاعری آج بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
پروین شاکر کی مقبول غزل:
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی
جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے
خشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
کوئی آہٹ کوئی آواز کوئی چاپ نہیں
دل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں آئے کوئی