’صاحب آنے والے ہیں، صاحب آنے والے ہیں‘‘
یہ مارچ 2018کی بات ہے میں جب نیشنل اسٹیڈیم پہنچا تو پی سی بی کے چند ’’بڑوں‘‘ کو دروازے پر یہ کہتے ہوئے پایا، میں بھی رک گیا کہ شاید صدر یا وزیر اعظم صاحب آ رہے ہیں دیکھتے ہیں، پھر سیاہ شیشوں والی ایک گاڑی رکی اور بورڈ کے ایک اعلیٰ عہدیدار تقریباً بھاگ کر گئے اور اس کا دروازہ کھولا، اندر سے چیئرمین نجم سیٹھی شان سے باہر نکلے، ایک اور صاحب نے ان کے ہاتھ میں موجود چیزیں سنبھال لیں اور پھر وہ بھرپور پروٹوکول میں چیئرمین باکس کی جانب گئے۔
میں نے یہ دیکھ کر سوچا واہ چیئرمین پی سی بی کے کیا مزے ہیں، ٹویٹر پر ان کی ایک، ایک ٹویٹ پر ہمارے بعض صحافی دوست بے چین ہو جاتے اور اس کی بریکنگ نیوز بنتی رہتیں، اب کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ اسی دن جب میڈیا سینٹر میں ڈائریکٹر امجد حسین بھٹی نظر آئے تو ان کے گرد صحافیوں کا جمگٹھا لگ گیا، بعض نے تو انھیں پی سی بی کی تاریخ کا سب سے اچھا اور پروفیشنل ڈائریکٹر میڈیا قرار دے دیا، میں یہ دیکھ کر مسکراتے رہا۔
یہ فروری 2020 کی بات ہے میں نیشنل اسٹیڈیم پہنچا تو ایک اعلیٰ عہدیدار کو اندرروڈ پر تقریباً بھاگتے ہوئے پایا، میں نے گاڑی کی رفتار آہستہ کر لی تو دیکھا کہ ایک سیاہ کار کو دیکھ کر وہ رک گئے اور ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا پھر ساتھ چلتے ہوئے مرکزی دروازے تک آئے، اس کار سے موجودہ سی ای او وسیم خان برآمد ہوئے جنھیں وہ آفیشل بھرپور پروٹوکول میں اپنے ساتھ اندر لے کر گئے۔
اسی پی ایس ایل کے دوران میں نے دیکھا کہ ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی جب میڈیا سینٹر آکر اپنے ’’دوستوں‘‘ میں بیٹھتے تو ان کی بھی خوب تعریفیں ہوتیں، ماتحت عملہ ان کے سامنے دبکا رہتا کہ کہیں سر ناراض نہ ہو جائیں، چند صحافی دوست انھیں تاریخ کا سب سے اچھا ڈائریکٹر میڈیا قرار دینے پر تلے ہیں،ٹویٹر پر ان کی خوب تعریفیں ہوتی ہیں، میں یہ دیکھ کر بھی مسکرا رہا ہوں کیونکہ مجھے پتا ہے کہ عزت نام نہیں عہدے کی ہے، کل کو کوئی اور چیئرمین بورڈ یا ڈائریکٹر آئے گا تو یہ لوگ اس کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیں گے، سلام اس شخص کو نہیں کرسی کو ہوتا ہے۔
یہ 23 فروری 2020 کی بات ہے میں نیشنل اسٹیڈیم گیا تو ہزاروں افراد کا مجمع دیکھا، سب خوش خوش میچ دیکھنے کیلیے اسٹیڈیم جا رہے تھے، میچ شروع ہوا تو تالیوں کی گونج سے وہ شور مچتا کہ کیا بتاؤں، کھلاڑی بھی خود کو اس وقت بہت عظیم شخصیت محسوس کر رہے ہوں گے جن کے ایک شاٹ یا گیند پر ہزاروں لوگ خوشی سے بے قابو ہو جاتے۔
یہ15مارچ 2020 کی بات ہے میں نیشنل اسٹیڈیم گیا تو اسے بالکل خالی پایا، سیکیورٹی اہلکاروں کے سوا کوئی موجود نہ تھا، باہر شائقین کی لائن نہ اندر تالیوں کی گونج، کب چھکا لگا یا وکٹ گری اگر گراؤنڈ پر توجہ نہیں تو کچھ پتا ہی نہ چلے کہ کیا ہوا۔
آپ لوگوں نے ان باتوں سے سبق لیا یا عبرت پکڑی یہ میں نہیں جانتا لیکن میں سیکھتا رہتا ہوں، سیٹھی صاحب اور امجد بھٹی صاحب اب کسی اسٹیڈیم میں نظر نہیں آتے کیونکہ جس پروٹوکول کی عادت تھی وہ اب نہیں ملے گا، آج وسیم خان، سمیع برنی،ذاکر خان وغیرہ اونچااُڑ رہے ہیں کل ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا، جب کرسی گئی تو آج انھیں دنیا کا بہترین سی ای او اور ڈائریکٹر قرار دینے والے کہیں نظر نہیں آئیں گے۔
ٹویٹر فورس بھی پارٹی بدل لے گی، مگر افسوس لوگ یہ نہیں سمجھتے اور ان کے ذہن میں ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ کیلیے عہدے پر براجمان رہیں گے اسی لیے گردن میں سریا آ جاتا ہے۔ ہمیں خالی میدان دیکھ کر عبرت پکڑنی چاہیے انسان کے ہاتھ میں کچھ نہیں،ایک ان دیکھے وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، اپنے قدم زمین پر رکھیں، آپ جتنا بھی اُونچا اُڑیں گے ایک دن آنا واپس زمین پر ہی ہے۔