حکومت کا پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرامز میں ایک کھرب روپے کٹوتی کا عندیہ


اسلام آباد: حکومت نے رواں برس مالی مشکلات پر قابو پانے کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں ایک کھرب روپے (15 فیصد) کمی، وفاقی بیوروکریسی کے اخراجات میں بڑا اضافہ اور صوبوں کو منتقل کی جانے والی رقم کی ری ایڈجسٹمنٹ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری خزانہ نوید کامران بلوچ کی جانب سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اراکین کو دی گئی بریفنگ میں کہا گیا کہ حکومت رواں ماہ کے دوران سلسلہ وار اقدامات اٹھانے والی ہے تاکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے اپریل میں 45 کروڑ ڈالر کی قسط کے لیے ‘دوسرا جائزہ مکمل کیا جائے’۔

آئندہ مالی سال کی بجٹ حکمت عملی کے طور پر نوید کامران نے وفاقی بجٹ کی کچھ خامیوں پر روشنی ڈالی جس میں پینشن کے اخراجات میں اضافہ، قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ، صوبوں کو منتقل کیے جانے والے وفاقی فنڈز کی غیر مستحکم شرح اور سبسڈیز اور سپورٹ پروگرام کی مد میں غیر حقیقت پسندانہ رقوم مختص کرنا شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 55 کھرب روپے کے ریونیو ہدف کو کم کر کے 52 کھرب 38 ارب روپے کردیا گیا ہے اور مزید کمی کے لیے حکومت آئی ایم ایف سے بات کررہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ رواں برس نان ٹیکس ریونیو کی صورتحال بہتر رہی اور 11 کھرب کے ہدف کے مقابلے میں 8 ماہ کے دوران 10 کھرب 25 ارب روپے اکٹھے ہوئے۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی کے مطابق اجلاس میں بتایا گیا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) بجٹ ہدف کے 7 کھرب ایک ارب روپے کے مقابلے 6 کھرب روپے رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ سیکریٹری خزانہ نے عندیہ دیا ہے کہ موجودہ مالی سال کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی اور سکوک بانڈز سے فنڈز اکٹھے کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی کا فائدہ عوام کو پہنچایا جائے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے 3 اصولوں پر مکمل عملدرآمد کررہی ہے جس میں مرکزی بینک سے ادھار نہ لینا، خود مختار ضمانتوں کی حدود نہ توڑنا اور رواں کوئی ضمنی گرانٹ نہ دینا شامل ہے۔

اس کے علاوہ سرکاری قرضوں اور ان کی ادائیگی کے منصوبوں کو آئندہ بجٹ میں عارضی طور پر مختصر مدت کی ادائیگیوں کو طویل مدت کی ادائیگیوں میں تبدیل کر کے مرکزی اسٹریم لائن کردیا جائے گا۔

سیکریٹری خزانہ نے زور دیا کہ صوبوں کو ‘انحصار کرنے کی عادت چھوڑ کر’ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں آمدن پیدا کرنے والے نئے طریقے شروع کرنے پر غور کرنا پڑے گا۔

سیکریٹری خزانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت کو 17 سے 22 گریڈ کے وفاقی اور صوبائی افسران کی تنخواہوں اور مراعات میں ‘تفاوت’ کو دور کرنا پڑے گا کیوں کہ اس وقت وفاقی بیوروکریسی واضح طور پر گھاٹے میں ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں