پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دو مہینوں میں جتنی مہنگائی ہوئی اتنی ہمارے 3 برسوں میں نہیں ہوئی حالانکہ ہم بھی عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پروگرام میں تھے۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے زیراہتمام منعقدہ ‘رجیم چینج’ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ خرم دستگیر کے منہ سے سچ نکل آیا ہے، ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ کیسے چوری کرنا ہے اور کیسے اس چوری کو بچانا ہے، باقی سب ثانوی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے، اگر 100 جج آنے بھی تھے تو ان کو کیا ڈر تھا۔
وفاقی وزیر خرم دستگیر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ خرم دستگیر نے کہا کہ عمران خان اپنا آرمی چیف رکھنا تھا اور 15 سال تک ہٹایا نہیں جاسکے اور احتساب بھی ہوجائے گا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اور آرمی چیف آئے گا تو ان کا احتساب رک جائے گا، اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اپنا آرمی چیف چاہیے جو ان کی مدد کرے۔
‘کبھی نہیں سوچا تھا کہ نومبر میں کس کو آرمی چیف بنانا ہے’
انہوں نے کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں اور اللہ کے سامنے حاضر ہو کر یہ بات کر رہا ہوں کہ میں نے کسی صورت اور کسی وقت کبھی نہیں سوچا تھا کہ نومبر میں کس کو آرمی چیف بنانا ہے، کیونکہ یہ مسئلہ تھا نہیں، میرے ذہن میں تھا کہ جب وقت آئے گا تو میرٹ پر جو بھی ہوگا لگاؤں گا، میں نے زندگی میں کبھی میرٹ کی خلاف ورزی نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو آرمی چیف کا مسئلہ کیوں تھا کیونکہ اس کے پاس چوری کا پیسہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ فوج کو کنٹرول کرنا چاہتا تھا، دیگر ادارے تو وہ کنٹرول کرچکا تھا، اب جو تماشا دیکھ رہے ہیں اداروں کا قتل عام ہو رہا ہے، ایف آئی اے اور نیب تباہ ہے اور ان سب پر اپنے لوگ بٹھا دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے ہمیشہ میرٹ کی خلاف ورزی کرکے اپنی پسند کا آرمی چیف لے کر آیا کیونکہ اس کو ضرورت ہے۔
عمران خان نے کہا کہ لوگ میرا مذاق اڑاتے تھے کہ یہ سیاست نہیں جانتا اور کہتے تھے کہ اگر نواز شریف کے خلاف کھڑے ہیں تو زرداری سے دوستی کریں لیکن میں نے کہا کہ دونوں چور ہیں اور اس پر ہمیشہ کمپرومائز نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہر وہ ادارہ جو ان کی چوری کے لیے خطرہ ہو اس کو کنٹرول کرنا ہے لہٰذا ان کو فوج سے ڈر ہوتا ہے کیونکہ آئی ایس آئی اور ملیٹری انٹیلیجنس کے پاس ان کی رپورٹس ہوتی ہیں اس لیے کنٹرول کرنا چاہتی ہیں، 90 کی دہائی میں دو دو مرتبہ ان کی حکومتیں چوری پر گئی ہیں۔
‘ان کو خوف تھا کہ میں جنرل فیض کو لانا چاہتا ہوں’
انہوں نے کہا کہ ان کے اپنے ذہن میں خوف آگیا تھا میں جنرل فیض کو لانا چاہتا ہوں، ان کے اوپر خوف طاری ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہ مضطرب تھے کہ نومبر میں اپنا آرمی چیف رکھ لیا تو یہ ملک تباہ ہوجائے گا یعنی ان کا مستقبل تباہ ہوجائے گا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ جب امریکا دوسرے ممالک کی بہتری کے لیے رجیم چینج کرتا ہے، اوپر سے کہتے ہیں کہ جمہوریت اور ہم دنیا میں جمہوریت لانا چاہتے ہیں اور فری ورلڈ کی بات کرتے ہیں لیکن اپنے مفاد اور خارجہ پالیسی آگے بڑھانے کے لیے لوگوں کو استعمال کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنے آپ کو کبھی بھی امریکی مخالف نہیں سمجھتا، ہماری زبردست پاکستانی امریکن کمیونٹی ہے جو سب سے امیر پاکستانی ڈائسپورا ہے، ہمیں ان سے تعلقات کبھی خراب نہیں کرنا چاہیے، امریکا سپر پاور ہے، ہماری سب سے زیادہ برآمدات امریکا کو ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی صورت تعلقات خراب نہیں کرنے چاہئیں لیکن کیا ہمیں اپنے آپ کو اس طرح ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہونا چاہیے، ان کا ایجنڈا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرو، ہندوستان کو تسلیم کرو کہ وہ یہاں ہمارا مقامی تھانیدار ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ان کا سیدھا ایجنڈا ہے کہ کشمیر کو بھول جاؤ کیونکہ وہ چاہتےہیں کہ بھارت تگڑا ہو تاکہ وہ چین کا سامنا کریں اور ہم سے چاہتےہیں بھارت جو کہے بڑے آرام سے سیلوٹ کرو۔
ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ پاکستان کا مفاد ہے، جس وقت اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں اسی وقت کشمیر کو مؤقف زیرو ہوجاتا ہے، پھر آپ تسلیم کرتے ہیں فلسطینیوں اور کشمیریوں کا کوئی حق نہیں رہا۔
‘تصور نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی شہباز شریف کو وزیراعظم بنا دے گا’
انہوں نے کہا کہ جب مجھے اس سازش کا پتہ چلا اور مجھے سازش کا سال پہلے اندازہ ہوا تھا کہ گیم شروع ہوئی ہے، میں جب بھی سوچتا تھا تو یہ سازش کیسے ہوگی کیا شہباز شریف کو کوئی ملک کا وزیراعظم بنا دے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں عمران خان جب آپ کو سازش کا پتہ چلا تھا تو کچھ کیوں نہیں کیا، میں ایمان داری سے کہہ رہا ہوں کہ میں تصور بھی نہیں کرسکتا ہوں کہ کوئی شہباز شریف کو ملک کا وزیراعظم بنا دے گا۔
عمران خان نے کہا کہ ایک دن نیوٹرلز سے بات کی اور کہا کہ اس کے اور ان کے بیٹوں کے اوپر ایف آئی اے کا 16 ارب اور نیب کا 8 ارب کا کیس ہے، اتنے اوپن کیسز کیسے کے نہیں ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف دائر مقدمات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اتنا بلیک اینڈ وائٹ کسی کے نہیں ہیں، نواز شریف نے پھر بھی اپنے نام پر کچھ نہیں کیا اور بیٹی کے نام پر فلیٹ لیا لیکن اس کیس میں یہ اور اس کے بیٹے براہ راست ملوث ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی عام آدمی ہوتا تو اس ملک میں اس کو دو دن میں جیل میں ڈال دیا جاتا۔
‘یہ سیٹ اپ پاکستان کی تباہی ہے’
انہوں نے کہا کہ اس سیٹ اپ کو ملک کے اوپر مسلط کرنے کے لیے ملک کے سارے اداروں کو تباہ کرنا پڑے گا، اس سیٹ اپ کو لوگوں کو ہضم کروانے کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں یہ اصل میں پاکستان کی تباہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ تباہ ہوگی، پارلیمنٹ کے اندر راجا ریاض اپوزیشن لیڈر ہوگا تو سمجھ جائیں اس پارلیمنٹ کی اہمیت رہ گئی ہے، ادھر پنجاب میں مذاق ہو رہا ہے، یہ جمہوریت کی توہین ہے اور ہماری عدلیہ کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔
عمران خان نے کہا کہ جو الیکشن کمیشن کر رہا ہے، جس طرح مخصوص نشستوں پر فیصلہ دیا حالانکہ مخصوص نشستیں جاتی ہیں تو ایک دم متبادل آجاتی ہیں لیکن الیکشن کمیشن حمزہ شہباز کو بٹھانے کے لیے انجینئرنگ کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی کریڈیبلٹی ختم ہوچکی ہے، کوئی یہ نہ کہے کی کریڈیبلٹی ختم ہوجائے گی، ہمیں پتہ ہے وہ شہزادہ اور شہزادی لاہور میں بیٹھے اور ان کے ایم ایز آکر انجینئرنگ کرتے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ایک بریگیڈیئر رانجھا ہوتے تھے جنہوں نے 2013 میں مسلم لیگ (ن) کے لیے ساری انجینئرنگ کی تھی اور اب جو ہو رہا ہے، اس سے پاکستان کی جمہوریت اور اخلاقیات کا نقصان ہو رہا ہے۔
‘نیوٹرلز کو بتایا تھا کہ ملک سیاسی عدم استحکام کو متحمل نہیں ہوسکتا’
انہوں نے کہا کہ میں نے اور شوکت ترین نے جا کر نیوٹرلز کو سمجھایا کہ ملک سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ ملک بڑی مشکلوں سے نکلا ہے، عالمی سپر سائیکل آیا ہوا ہے، بیرونی زرمبادلہ کی کمی، ہماری کرنسی پر اثر پڑے گی، اس سازش کو روکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی عدم استحکام سے سب سے پہلے ہماری کرنسی اور زرمبادلہ پر اثر پڑنا تھا اور وہی ہوا اور ہمیں پتہ تھا کہ ان کو معیشت کی سمجھ نہیں تھی کیونکہ سمجھ ہوتی تو 10 سال پہلے کچھ کرتے لیکن ہمیں سب پتہ تھا کیا کرنا ہے۔
حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ان کی صرف ایک تیاری تھی کہ این آر او لینا تھا، آج معیشت نیچے جا رہی ہے اور پاکستان تباہ ہو رہا ہے، ان کے دو مہینوں میں عام لوگوں کے لیے اتنی مہنگائی ہوئی جو ہمارے 3 سال میں نہیں ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اوپر بھی سپر سائیکل تھا، کورونا اور ہم بھی آئی ایم ایف پروگرام میں تھے تو ہم نے ایسی مہنگائی کیوں نہیں کی لیکن انہوں نے آتے ہی مہنگائی کردی پھر یا ہمارے اوپر ڈال رہے ہیں یا آئی ایم ایف پر ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی سوچ صرف اپنی ذات پر تھی جو خرم دستگیر کہہ گیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ایک جینوئن پاکستان میں ایک کراس روڈ آگیا ہے، یا ادھر یا ادھر جاسکتے ہیں، نیوٹرل بیچ میں گیئر ہی نکل گیا ہے، فیصلہ کرنا ہے اب اس ملک کو یہ جس طرف لے کر جانا چاہتے ہیں اس سے بچانا کیسے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کا خیال ہے کہ ہم امریکا کے پیر پکڑیں گے، میں تصور کر رہا ہوں کہ مفتاح اسمٰعیل وہاں جا کر ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گیا ہوگا کہ میں آپ کے جوتے پالش کردوں گا اگر آپ کہتے ہیں تو شہباز کو بلا لیتا ہوں وہ اور زیادہ اچھے پالش کرتا ہے۔
عمران خان نے آخر میں کہا کہ نیوٹرلز سے ایک سوال ہے کہ اگر گھر پر ڈاکا پڑے تو کیا چوکیدار نیوٹرل ہوسکتا ہے۔