فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے سینئر رہنما نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے سینئر رہنما نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے تیار ہیں، لیکن اس کے لیے یہ شرط رکھی کہ جنگ بندی کی تجویز اسرائیل کی جانب سے منظور کی جائے اور اس کا احترام کیا جائے۔ حماس کے سیاسی ونگ کے رکن باسم نعیم نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ فلسطینی علاقوں پر بمباری کا سلسلہ بند کرے۔
گذشتہ ہفتے قطر نے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے لیے ثالث کا کردار ادا کیا تھا، تاہم قطر نے اعلان کیا کہ فریقین کی جانب سے سنجیدگی کی کمی کے باعث وہ اس عمل کو معطل کر رہا ہے۔ قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا کہ جب فریقین جنگ بندی کے لیے اپنی سنجیدگی دکھائیں گے تو قطر اپنے ثالثی کے کردار کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے تیار ہے۔
حماس کے رہنما باسم نعیم نے کہا کہ اگر جنگ بندی کی تجویز پیش کی جائے اور اسرائیل اس کا احترام کرے تو حماس غزہ میں جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام پر اسرائیلی حملوں کی روک تھام کے لیے امریکی حکومت کو فوری طور پر اقدامات کرنے چاہئیں۔
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، اور غزہ کے رہائشی مسلسل بمباری کے دوران تباہی اور نقصان کا سامنا کر رہے ہیں۔ غزہ کے شہری محمد برکا نے بتایا کہ رات کے وقت ایک دھماکے کی آواز سے وہ بیدار ہوئے، اور انہوں نے اپنے اہل خانہ کو ملبے تلے دبے ہوئے پایا۔ اس حملے میں 15 افراد شہید ہو گئے تھے۔ انہوں نے اس جنگ کے فوری خاتمے کی اپیل کی اور کہا کہ معصوم بچے اور خواتین اس تنازعے کی سب سے زیادہ متاثرہ فریق ہیں۔
غزہ کے وزارت صحت کے مطابق، اسرائیلی حملوں میں اب تک 43,764 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جب کہ ایک لاکھ سے زائد افراد زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (OHCHR) نے اپنی تازہ رپورٹ میں اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات پیش کی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں غزہ کے عام شہری شدید متاثر ہوئے ہیں، جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔
یاد رہے کہ حماس کی جانب سے سیزفائر اور قیدیوں کے تبادلے کے متعلق تازہ مسودے کو مسترد کیے جانے کے بعد امریکا نے قطر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حماس کی موجودگی کو غیر موزوں قرار دے۔ ایک سینئر امریکی عہدیدار نے کہا کہ چونکہ حماس نے قیدیوں کے تبادلے کی تجاویز کو رد کیا ہے، اس لیے قطر سمیت کسی بھی ملک میں حماس کی موجودگی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔جنگ بندی کے لیے تیار ہیں، لیکن اس کے لیے یہ شرط رکھی کہ جنجانبگ بندی کی تجویز اسرائیل کی سے منظور کی جائے اور اس کا احترام کیا جائے۔ حماس کے سیاسی ونگ کے رکن باسم نعیم نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ فلسطینی علاقوں پر بمباری کا سلسلہ بند کرے۔
گذشتہ ہفتے قطر نے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے لیے ثالث کا کردار ادا کیا تھا، تاہم قطر نے اعلان کیا کہ فریقین کی جانب سے سنجیدگی کی کمی کے باعث وہ اس عمل کو معطل کر رہا ہے۔ قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا کہ جب فریقین جنگ بندی کے لیے اپنی سنجیدگی دکھائیں گے تو قطر اپنے ثالثی کے کردار کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے تیار ہے۔
حماس کے رہنما باسم نعیم نے کہا کہ اگر جنگ بندی کی تجویز پیش کی جائے اور اسرائیل اس کا احترام کرے تو حماس غزہ میں جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام پر اسرائیلی حملوں کی روک تھام کے لیے امریکی حکومت کو فوری طور پر اقدامات کرنے چاہئیں۔
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، اور غزہ کے رہائشی مسلسل بمباری کے دوران تباہی اور نقصان کا سامنا کر رہے ہیں۔ غزہ کے شہری محمد برکا نے بتایا کہ رات کے وقت ایک دھماکے کی آواز سے وہ بیدار ہوئے، اور انہوں نے اپنے اہل خانہ کو ملبے تلے دبے ہوئے پایا۔ اس حملے میں 15 افراد شہید ہو گئے تھے۔ انہوں نے اس جنگ کے فوری خاتمے کی اپیل کی اور کہا کہ معصوم بچے اور خواتین اس تنازعے کی سب سے زیادہ متاثرہ فریق ہیں۔
غزہ کے وزارت صحت کے مطابق، اسرائیلی حملوں میں اب تک 43,764 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جب کہ ایک لاکھ سے زائد افراد زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (OHCHR) نے اپنی تازہ رپورٹ میں اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات پیش کی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں غزہ کے عام شہری شدید متاثر ہوئے ہیں، جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔
یاد رہے کہ حماس کی جانب سے سیزفائر اور قیدیوں کے تبادلے کے متعلق تازہ مسودے کو مسترد کیے جانے کے بعد امریکا نے قطر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حماس کی موجودگی کو غیر موزوں قرار دے۔ ایک سینئر امریکی عہدیدار نے کہا کہ چونکہ حماس نے قیدیوں کے تبادلے کی تجاویز کو رد کیا ہے، اس لیے قطر سمیت کسی بھی ملک میں حماس کی موجودگی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔