اسلام آباد/راولپنڈی: جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کو 31 اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت میں آزادی مارچ کے لیے انتظامیہ کی جانب سے تصدیق نامہ عدم اعتراض (این اوسی) دے دیا گیا۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق انتظامیہ کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ پولیس آپریشن ڈویژن اور اسپیشل برانچ کی جانب سے رپورٹس موصول ہونے کے بعد این او سی جاری کیا گیا، حالانکہ ان رپورٹس میں احتجاجی مارچ کو اجازت نہ دینے کی تجویز دی گئی تھی۔
خیال رہے کہ اسپیشل برانچ نے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) اور وزارت داخلہ کی جانب سے خطرے کا الرٹ کا بھی جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ جے یو آئی ف، تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
اس ضمن میں ایک عہدیدار نے بتایا کہ مذکورہ این او سی اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنرحمزہ شفقت نے جاری کیا جبکہ منتظمین سے مذکورہ این او سی کی شرائط و ضوابط پر عمل کرنے کا حلف نامہ بھی طلب کیا گیا ہے۔
این او سی میں کہا گیا کہ اندرونی طور پر مارچ کے شرکا کو سیکیورٹی فراہم کرنا جے یو آئی (ف) کی ذمہ داری ہے جس کی فہرست پیشگی طور پر مقامی پولیس حکام کو بھی فراہم کردی جائے گی۔
این او سی میں ہدایت کی گئی ہے کہ مارچ کے شرکا متعین کردہ چار دیواری سے آگے نہیں جائیں گے اور ریاست، کسی مذہب یا پاکستان کے نظریے کے خلاف نفرت انگیز تقاریر نہیں کی جائیں گی۔
اس کے علاوہ مذکورہ مقام کے قریب ہتھیار، اور کسی قسم کا آتشیں اسلحے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن اندرونی سیکیورٹی کے لیے کسی بھی قسم کی چیز کی ضرورت ہو تو اس کی انتظامیہ سے اجازت لی جائے گی۔
این او سی میں آزادی مارچ کے تمام شرکا کو پولیس کے ٹریفک منیجمنٹ منصوبے پر عمل کرنے اور چیکنگ یا تلاشی کےوقت کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالنے کی ہدایت کی گئی۔
این او سی کے اجرا کے بعد ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے جے یو آئی ف کے وفد سے ملاقات بھی کی جس میں داخلی و خارجہ راستوں، پارکنگ کے مقام، ٹوائلٹس، خوراک کے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا۔
مذکورہ ملاقات میں مارچ کے داخلی اور خارجہ راستوں پر بھی اتفاق کیا گیا، اس موقع پر ریڈ زون جزوی طور پر سیل کردیا جائے گا اور مارچ کے خاتمے تک وہاں کسی کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
خیال رہے کہ پیر کی رات 8 بجے تک مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں آزادی مارچ سندھ کے شی گھوٹکی پہنچا تھا جس میں 32 ہزار کارکنان، ایک ہزار سے زائد گاڑیاں اور انصارالسلام کے ایک ہزار سے زائد کارکنان موجود ہیں۔