جنوبی ایشیا کا فیصلہ کن موڑ: پاکستان کی جنگ نے عالمی طاقت کا نقشہ کیسے بدل دیا
تحریر : راجہ زاہد اختر خانزادہ
مئی 2025 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جھڑپ ایک عام سرحدی تصادم نہ تھی—یہ طاقت، ٹیکنالوجی، اور عالمی بیانیے کی جنگ تھی۔ اس جنگ کا آغاز پہلگام کے واقعے سے ہوا، جہاں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کو بھارت نے فوراً پاکستان سے جوڑ کر بغیر کسی تحقیق کے جنگی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ پاکستان نے ابتدا میں تحمل کا مظاہرہ کیا، مگر 10 مئی کی صبح جب بھارت کی جارحیت حد سے تجاوز کر گئی، تو پاکستان نے “آپریشن بنیان مرصوص” کا آغاز کرتے ہوئے بھارت کو غیر روایتی اور غیر متوقع انداز میں جواب دیا—اور یہی لمحہ اس جھڑپ کو تاریخ کا موڑ بنا گیا۔
اس جنگ میں صرف بندوقیں نہیں بولیں، بلکہ مصنوعی ذہانت، سائبر وار، سینسر فیوژن، اور سیٹلائٹ انٹیلیجنس جیسے جدید ہتھیاروں نے کردار ادا کیا۔ یہ لڑائی محض سرحد پر موجود فوجیوں کی نہیں تھی بلکہ یہ ایک ملٹی ڈومین وار تھی جس میں فضا، زمین، خلا، اور ڈیجیٹل دنیا سب میدان جنگ بنے۔ بھارت کے مہنگے ترین رافیل طیارے، جنہیں برتری کی علامت سمجھا جاتا تھا، پاکستان کے J-10C اور PL-15 میزائلوں کے سامنے بے بس ہو گئے۔ Spectra جیسے جدید فرانسیسی دفاعی نظام ناکام ہو گئے اور بھارت کی فضائیہ، جو حملہ آور بن کر آئی تھی، 300 کلومیٹر پیچھے ہٹ گئی۔
اس تمام تر منظرنامے میں سب سے چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ پاکستان کے پیچھے چین کھڑا تھا، نہ صرف سیاسی طور پر بلکہ عسکری تعاون اور ٹیکنالوجی شیئرنگ کے ذریعے بھی۔ پاکستان نے جس مہارت سے بھارتی سائبر سسٹمز، ریلوے نیٹ ورکس اور پاور گرڈز کو ہدف بنایا، اس نے واضح کر دیا کہ اب جنگیں صرف میدانوں میں نہیں، بٹنوں پر بھی لڑی جاتی ہیں۔ بھارت جو سمجھتا تھا کہ وہ رافیل اور S-400 جیسے سسٹمز کے ساتھ ناقابل تسخیر ہے، اچانک اسے احساس ہوا کہ ٹیکنالوجی خریدنے اور اسے سمجھنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
یہ جنگ صرف پاکستان اور بھارت کی نہیں تھی—یہ عالمی طاقتوں کا امتحان بھی تھی۔ امریکہ، جو شروع میں بھارت کی طرف جھکتا دکھائی دیا، بعد ازاں نیوٹرل ہو گیا جب اسے اندازہ ہوا کہ پہلگام کا واقعہ دراصل بھارت کا خود ساختہ حملہ تھا۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے اس جنگ سے لاتعلقی کا اعلان کیا، لیکن سی آئی اے کی بریفنگ کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کو اپنا مؤقف بدلنا پڑا۔ یوں یہ بھی واضح ہوا کہ بھارت صرف پاکستان سے نہیں، چین سے بھی نبرد آزما ہے، اور اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔
مودی حکومت، جو اس جنگ کو داخلی سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی، الٹا اس میں پھنس گئی۔ بھارتی میڈیا نے پہلے تو روایتی شور مچایا، مگر جب رافیل طیارے گرتے دیکھے، S-400 ناکام ہوتے پائے، اور چین کی خاموش موجودگی محسوس ہوئی، تو بیانیہ لڑکھڑا گیا۔ کانگریس اور دیگر جماعتوں نے مودی پر سوال اٹھانے شروع کر دیے اور بھارت کی سفارتی تنہائی کھل کر سامنے آ گئی۔
یہ جنگ صرف سرحدی جھڑپ نہیں تھی، یہ ایک نئے عالمی طاقت کے توازن کی جھلک تھی۔ چین نے دنیا کو پیغام دیا کہ وہ نہ صرف تائیوان بلکہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اپنی مرضی کا ماحول پیدا کر سکتا ہے۔ پاکستان نے صرف دفاع نہیں کیا، بلکہ اپنی حکمت عملی، عسکری تربیت، اور سفارتی توازن سے دنیا کو یہ باور کرایا کہ جنوبی ایشیا کا مستقبل اب پرانے اصولوں سے نہیں، نئی ٹیکنالوجی، بہتر سفارت، اور اسمارٹ وارفیئر سے طے ہوگا۔ یہ تاریخ کا ایک ایسا موڑ تھا جس کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر محسوس کیے جائیں گے۔
Part B
پاکستان کی جوابی کارروائی نہ صرف جارحانہ تھی بلکہ غیر متوقع بھی—اس میں صرف ہدف تباہ نہیں کیے گئے، بلکہ بھارت کی پوری جنگی منصوبہ بندی کو نفسیاتی، سفارتی اور عسکری سطح پر ہلا کر رکھ دیا گیا۔ جہاں بھارت نے “آپریشن سندور” کے تحت پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر حملے کا جواز پیش کیا، وہاں پاکستان نے “بنیان مرصوص” کے ذریعے یہ باور کرایا کہ جارحیت کا جواب خاموشی نہیں بلکہ نظم و ضبط کے ساتھ بھرپور طاقت ہے۔
یہ کارروائی صرف میزائل فائرنگ یا ڈرون حملوں تک محدود نہیں تھی۔ بھارت کے نو عسکری مراکز کو نشانہ بنانا، جے ایف 17 تھنڈر اور جے 10 سی کے ذریعے بھارت کے جدید رافیل اور سو-30 جیسے طیاروں کو فضا میں نیوٹرل کرنا، اور پھر زمینی محاذ پر بریگیڈ ہیڈکوارٹرز، اسلحہ ڈپو اور سپلائی لائنوں کو تباہ کرنا—یہ سب ایک منظم، منصوبہ بند اور اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیت کا ثبوت تھا۔ بھارت کے ایس-400 سسٹم، جس پر وہ بڑا فخر کرتا تھا، اس کا زمین بوس ہو جانا صرف ٹیکنالوجی کی شکست نہیں بلکہ بھارت کی سٹریٹجک خود اعتمادی کا انہدام تھا۔
ان سب واقعات نے بھارت کی اندرونی سیاسی فضا کو بھی جھنجھوڑ دیا۔ مودی حکومت پر سوالات کی بوچھاڑ ہوئی۔ جن رافیل طیاروں کو انتخابی کامیابی کا ہتھیار بنایا گیا تھا، وہ آسمان سے زمین پر آ گرے۔ کانگریس نے فوراً پارلیمنٹ میں سوال اٹھائے: “کیا ہم نے 250 ملین ڈالر فی طیارہ صرف اس لیے خرچ کیے کہ وہ چند سیکنڈز میں گرا دیے جائیں؟” بھارت کا میڈیا، جو ابتدا میں حب الوطنی کے بخار میں ڈوبا ہوا تھا، اب حکومت سے ثبوت مانگ رہا تھا—کہاں ہے پاکستان کا نقصان؟ کہاں ہے تمہاری جیت؟ جواب ندارد۔
دوسری طرف، پاکستان نہ صرف عسکری محاذ پر غالب آیا بلکہ سفارتی سطح پر بھی اس نے اپنی برتری ثابت کی۔ ترکی، چین، ایران، سعودی عرب اور قطر نے پاکستان کے موقف کی حمایت کی۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے صبر و تحمل کو سراہا گیا۔ امریکہ نے اپنی روایتی منافقت کے باوجود، سیز فائر کی ثالثی کی پیشکش کر دی کیونکہ جنگ کا پھیلاؤ عالمی معیشت اور جغرافیائی سیاست کے لیے خطرہ بن چکا تھا۔
یہاں چین کا کردار خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ چین نے نہ صرف پاکستان کو براہ راست عسکری سپورٹ دی بلکہ اس جنگ کو ایک “ٹیکنالوجی ٹیسٹ” کے طور پر استعمال کیا۔ PL-15 میزائل، J-10C، سینسر فیوژن، اور سائبر وار کے ہتھیاروں کو میدانِ عمل میں آزما کر چین نے درپردہ پیغام دے دیا: اگر ہم تائیوان لینا چاہیں، تو ہمیں دنیا کی منظوری کی ضرورت نہیں۔
پاکستان نے اس جنگ میں جو کامیابیاں حاصل کیں، وہ محض عسکری نوعیت کی نہیں تھیں—یہ سفارتی وقار، ٹیکنالوجی کا تسلط، اور بیانیے کی فتح تھی۔ جب بھارت نے سیز فائر کی اپیل کی، تو حقیقت میں وہ شکست تسلیم کر رہا تھا، چاہے وہ اسے کسی بھی انداز میں پیش کرے۔
یہ جنگ جنوبی ایشیا کے لیے ایک موڑ تھا۔ اب طاقت کا توازن ایک نئے بلاک کی طرف جھک چکا ہے: پاکستان، چین، ایران، روس، اور ترکی۔ اس بلاک نے یہ ثابت کیا کہ اب دنیا کے فیصلے صرف واشنگٹن یا نیویارک میں نہیں ہوتے، بیجنگ اور راولپنڈی میں بھی طے ہوتے ہیں۔ پاکستان، جسے دنیا کبھی صرف دہشتگردی اور معیشت کے تناظر میں دیکھتی تھی، اب ایک جدید، باشعور، اور سٹریٹجک اسمارٹ ریاست کے طور پر ابھرا ہے
Part c
جنگ کا اختتام اگرچہ ایک سیز فائر پر ہوا، لیکن اس سیز فائر کی نوعیت رسمی سے زیادہ ایک غیر اعلانیہ اعتراف شکست تھی—خصوصاً بھارت کے لیے۔ جب بھارتی فوج کی ترجمان کرنل صوفیہ قریشی نے امن کی پیشکش کی، تو وہ صرف ایک اعلان نہیں بلکہ ایک دفاعی پسپائی کا اشارہ تھا۔ پاکستان نے جنگ کے میدان میں نہ صرف بھارت کی عسکری چالوں کو ناکام بنایا بلکہ اسے عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا بھی سامنا کروایا۔
اس تمام عرصے میں پاکستان کی عسکری قیادت، خصوصاً آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی حکمت عملی، برداشت اور جوابی قوت کا کردار فیصلہ کن رہا۔ پاکستان نے ثابت کیا کہ عسکری ردعمل صرف طاقت سے نہیں، عقل، ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی ساکھ سے بھی جیتا جا سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس سب کے بعد آگے کیا ہوگا؟
بھارت کے لیے یہ جنگ صرف ایک عارضی پسپائی نہیں بلکہ مستقبل کی پالیسیوں میں ایک واضح چیلنج ہے۔ مودی حکومت، جو خود کو ناقابلِ شکست اور علاقائی تھانیدار سمجھتی تھی، اب اندرونی اور بیرونی محاذوں پر دباؤ کا شکار ہے۔ انتخابی خطرات، میڈیا کی تنقید، اور معاشی عدم استحکام نے بھارتی ریاستی بیانیے کو کمزور کر دیا ہے۔ رافیل جیسے مہنگے منصوبے ناکامی کی علامت بن چکے ہیں، اور S-400 کی ناکامی نے بھارت کے ہتھیاروں پر عالمی اعتماد کو بھی متزلزل کر دیا ہے۔
اس کے برعکس، پاکستان نے جنگ کے ذریعے ایک نئی پہچان حاصل کی ہے۔ اب یہ ملک صرف دفاعی ردعمل دینے والی ریاست نہیں بلکہ ایک اسمارٹ وارفیئر پاور کے طور پر ابھر رہا ہے، جس کے پاس نہ صرف طاقت ہے بلکہ اتحادیوں کی پشت پناہی، مضبوط بیانیہ، اور جدید ترین دفاعی انفرا اسٹرکچر بھی موجود ہے۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ اب عالمی منظرنامے پر “مسئلہ” نہیں بلکہ “حل” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کا اعتماد بحال ہوا، عالمی برادری نے پاکستان کے مؤقف کو سراہا، اور اہم عالمی کھلاڑیوں جیسے چین، ترکی، ایران اور سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونے کا عملی مظاہرہ کیا۔
عسکری اعتبار سے، پاکستانی فضائیہ نے جو کارکردگی دکھائی، وہ آئندہ دہائیوں تک خطے کی جنگی پالیسیوں پر اثر انداز ہوگی۔ پاکستان نے نہ صرف دشمن کے طیارے گرائے بلکہ دشمن کی نفسیات پر ضرب لگائی—یہ ایک نفسیاتی فتح تھی، جو صرف میدان میں فتح سے بڑی ہوتی ہے۔
مستقبل کی طرف دیکھیں تو اب بھارت کے لیے ایک اور جنگ چھیڑنا آسان نہیں ہوگا۔ نہ صرف اس کے دفاعی نظام پر سوال اٹھ چکے ہیں بلکہ اس کی سیاسی قیادت کی فیصلہ سازی بھی شکوک و شبہات کی زد میں آ چکی ہے۔
اس کے برعکس، پاکستان اب ایک مضبوط، منظم، اور حکمت عملی سے بھرپور ریاست کے طور پر ابھرا ہے۔ اس جنگ نے اسے علاقائی بلاک کا ایک کلیدی رکن بنا دیا ہے، جو چین، ایران، روس اور ترکی جیسے ممالک کے ساتھ ایک نئے ورلڈ آرڈر کی بنیاد رکھتا ہے۔
یہ سب کچھ اس بات کا اشارہ ہے کہ اب جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن صرف معیشت یا فوجی ساز و سامان سے نہیں بلکہ بیانیے، ٹیکنالوجی، اتحاد، اور سٹریٹجک وژن سے طے ہوگا—اور پاکستان نے اس نئے دور کا آغاز کر دیا ہے