درآمد کنندگان کی جانب سے زیادہ طلب کے پیش نظر ڈالر کو دباؤ کا سامنا ہے جس کی قیمت گزشتہ روز انٹربینک ٹریڈنگ میں 1.51 روپے اضافے سے 229.88 روپے ہو گئی جبکہ اوپن مارکیٹ میں ریٹ 2.50 روپے اضافے سے 231.50 ہو گیا۔
بینکرز کا کہنا ہے کہ ’امپورٹ مافیا‘ نے عملی طور پر قومی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا اور اب بھی اصرار کر رہے ہیں کہ مزید درآمدات کی اجازت دی جائے جب کہ ملک پہلے ہی دیوالیہ ہونے کے نزدیک ہے۔
ایک سینئر بینکر نے کہا کہ تجارت کے توازن کو ٹھیک کرنے کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کیا جانا چاہیے، 22-2021 میں 48 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے نے ملک کی ادائیگی کی صلاحیت کو ختم کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ معاشی منتظمین کو کوئی تشویش نہیں کہ ملک ان درآمدات کی ادائیگی کیسے کرے گا، بینکوں کے ڈالر کے ذخائر پہلے ہی نیچے ہیں، بینک درآمدات کے لیے ڈالر کا بندوبست کرنے سے قاصر ہیں۔
پاک-کویت ڈویلپمنٹ اینڈ انویسٹمنٹ کمپنی کے سربراہ ریسرچ سمیع اللہ طارق نے کہا اگر ڈالر کی آمد ایک ہفتے کے اندر ہوئی تو شرح مبادلہ میں ٹھہراؤ آئے گا، بصورت دیگر ایک اور مشکل صورتحال پیدا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کی شدید قلت ہے اور اس کے باوجود حکومت نے آئندہ 2 ماہ کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کے لیے 3 ارب 60 کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ادائیگی 30 روز کے اندر واجب ہے، بہت زیادہ اخراج ڈالر کی قلت کا باعث بن رہا ہے کیونکہ بینک درآمدات کے لیے زرمبادلہ کا بندوبست کرنے سے قاصر ہیں۔
چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای سی اے پی) ملک بوستان نے کہا کہ ’گزشتہ ہفتے ایک میٹنگ کے دوران میں نے وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل سے کہا کہ وہ افغان درآمدات کو روک دیں جس سے بہت بڑا تجارتی خسارہ پیدا ہوا ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’افغانستان نے پاکستان سے دشمنی کی ہے کیونکہ جب پاکستان نے کوئلہ خریدنے پر آمادگی ظاہر کی تو اس نے کوئلے کی قیمتوں میں 200 ڈالر فی ٹن اضافہ کردیا‘۔
ملک بوستان نے کہا کہ جب سے طالبان نے افغانستان کا اقتدار سنبھالا ہے اس وقت سے ہمیں افغانستان سے درآمدات کے لیے ماہانہ 2 ارب ڈالر ادا کرنے پڑتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اگست 2021 میں ڈالر 157 روپے پر تھا اور اسٹیٹ بینک کے ذخائر 20 ارب ڈالر تھے۔
کراچی میں ایک کرنسی ڈیلر انور بھائی نے کہا ’ڈالر کی سرکاری شرح اصل شرح نہیں ہے، ایک گرے مارکیٹ ابھر چکی ہے، اس گرے مارکیٹ سے کوئی بھی زیادہ نرخوں پر ڈالر خرید سکتا ہے‘۔
ڈالر میں اضافے کے لیے وفاقی حکومت نے 22 جولائی کو ایک آرڈیننس پاس کیا جس کے تحت اسے ریگولیٹری اتھارٹیز کی مداخلت کے بغیر قومی اثاثے فروخت کرنے کی اجازت دی گئی۔
اس آرڈیننس پر تاحال صدر کے دستخط ہونا باقی ہیں، یہ اقدام معیشت کو دیوالیہ ہونے سے روکنے میں ناکامی پر حکومت کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔
عرب ممالک ڈالر کے عوض اہم قومی اثاثوں میں حصہ داری کا مطالبہ کر رہے ہیں، دریں اثنا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان پہلے 4 ارب ڈالر جمع کرے جس کے بعد آئی ایم ایف ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرے گا۔