تیراہ اور باڑہ قبائل کا امن کمیٹیاں بنانے سے انکار

تیراہ اور باڑہ قبائل کا امن کمیٹیاں بنانے سے انکار


خیبر پختونخوا کے علاقوں تیراہ اور باڑا کے علاقوں کے قبائلی عمائدین نے امن کمیٹیاں بنانے سے انکار کر دیا اور سکیورٹی فورسز پر زور دیا ہے کہ وہ علاقے میں عوام کی جان و مال کی حفاظت کریں۔

تیراہ کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ملک دین خیل، کمرخیل، اکاخیل، سپاہ، کوکی خیل، آدم خیل اور ذخہ خیل کے عمائدین نے باغ میدان کے علاقے میں سیکورٹی حکام سے ملاقات کی اور وادی میں امن برقرار رکھنے میں مدد کرنے کی درخواست کی۔

تاہم عمائدین نے کہا کہ تیراہ میں مقامی طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے خلاف لڑائی کے دوران ان کا فورسز کے ساتھ جو اعتماد پیدا ہوا تھا وہ امن کے وعدے کو پورا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ختم ہو گیا تھا۔

انہوں نے سیکیورٹی حکام کو یہ بھی بتایا کہ تیراہ کے زیادہ تر رہائشی امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے کسی مدد کی پیشکش کے بجائے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کو ترجیح دیں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ وادی کے کچھ حصوں میں مسلح گروہوں کے دوبارہ سر اٹھانے کے تناظر میں مقامی قبائل کی مدد طلب کی گئی تھی، جن کے رہائشی نقل مکانی کے ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد حال ہی میں واپس آئے تھے۔

ملاقات میں ایک شریک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ رہائشیوں کا امن کے لیے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کرنا ناممکن ہے کیونکہ باڑ والی سرحد پر عسکریت پسندوں کی دراندازی کو روکنے میں ناکامی پر ان کا ریاستی حکام پر سے اعتماد کھو چکا ہے۔

شرکا کا کہنا تھا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیکیورٹی کی خامیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لوگوں کے عدم اعتماد کو ختم کرے۔

باڑا میں فورٹ سلوپ میں ہونے والی ایک حالیہ میٹنگ کے دوران بھی مقامی عمائدین نے سیکیورٹی حکام کو اس سے آگاہ کیا تھا۔

انہیں ملک دین خیل کے علاقے میں قلعہ کے قریب دستی بم حملے کے مرتکب افراد کی شناخت میں سیکیورٹی فورسز کی مدد کرنے کے لیے بلایا گیا ہے۔

ذرائع نے اصرار کیا کہ بار قمبر خیل کے کچھ عمائدین نے مطلوب شرپسندوں کو ’ٹریس‘ کرنے میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادگی ظاہر کی جبکہ اسی قبیلے کے دیگر افراد نے بعد میں ہونے والی میٹنگ میں کوئی امن کمیٹی بنانے یا دہشت گردوں کا سراغ لگانے سے انکار کردیا۔

ذرائع نے بتایا کہ سپاہ اور ملک دین خیل قبائل کے نمائندوں نے اپنے اپنے علاقوں میں ’ناپسندیدہ عناصر‘ کا سراغ لگانے کے لیے کسی بھی قسم کی مدد کی پیشکش کرنے سے صاف انکار کردیا اور سیکیورٹی حکام کو بتایا کہ ’صورتحال کو سنبھالنا‘ ان کی ذمہ داری ہے۔

دریں اثنا باڑا کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مسلح افراد کی موجودگی کی وجہ سے باغڑائی، جرروبی اور درے نگری کے علاقوں سے فرار ہونے والے خاندان چند ہفتے قبل ہی واپس آئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ تقریباً 100 خاندانوں نے جون میں واپسی کے صرف دو ماہ بعد ہی دیہاتوں میں قائم گھر چھوڑ دیے تھے کیونکہ انہوں نے بھاری ہتھیاروں سے لیس افراد کو آزادانہ گھومتے ہوئے دیکھا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ ان خاندانوں کی اکثریت نے درس جمعتہ، اکاخیل، بالائی باڑا میں عارضی پناہ لی اور اصرار کیا کہ وہ اپنے گھروں کو تبھی واپس جائیں گے جب سیکیورٹی فورسز ان کے گاؤں سے ’عسکریت پسندوں‘ کا خاتمہ کر دیں گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان علاقوں میں محدود پیمانے پر فوجی آپریشن کی افواہیں تھیں لیکن مسلح افراد غائب ہو گئے اور کسی کو ان کے ٹھکانے کا علم نہیں تھا۔


اپنا تبصرہ لکھیں