پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی سرگودھا کی 15 سالہ رضوانہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گئی ہے اور اسے چند روز میں لاہور جنرل ہسپتال (ایل جی ایچ) سے ڈسچارج کر دیا جائے گا۔
اسے جولائی میں اس وقت ہسپتال لایا گیا تھا جب اسلام آباد کے ایک سول جج اور اس کی اہلیہ سمیت ان کو اپنے گھر میں ملازمت پر رکھنے والے دیگر افراد پر نوجوان لڑکی کو غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام لگایا گیا تھا۔
لاہور جنرل ہسپتال کے ترجمان نے کہا کہ ڈاکٹروں اور نرسوں نے 120 دن تک رضوانہ کے علاج اور دیکھ بھال کے لیے پیشہ ورانہ فرائض سر انجام دیے جس کے نتیجے میں وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہونے میں کامیاب ہو گئی۔
حکومتی ہدایات پر لڑکی کے اہل خانہ کو چار ماہ تک رہائش اور کھانا فراہم کیا گیا۔
رضوانہ کو جب لاہور جنرل ہسپتال لایا گیا تھا تو اس کی حالت تشویشناک تھی اور اس کے اندرونی اعضا متاثر تھے۔
علاج کے دوران بچی کی آکسیجن کی سطح غیر مستحکم رہی اور بعض اوقات اس کی حالت انتہائی تشویشناک ہو جاتی تھی۔
رضوانہ تشدد کیس
رواں سال 25 جولائی کو سرگودھا سے تعلق رکھنے والی 13 سالہ گھریلو ملازمہ کے ساتھ بدترین تشدد کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا، اسلام آباد پولیس نے سول جج کی اہلیہ کے خلاف گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کا مقدمہ درج کیا تھا اور کہا تھا کہ ملزمہ کی گرفتاری کے لیے کوشش کی جا رہی ہے، مزید کہا کہ مقدمے کی تفتیش میرٹ پر کی جائے گی، تمام تر قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
26 جولائی کو پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ 13 سالہ گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد میں ملوث جج اور ان کی اہلیہ روپوش ہوگئے جس کی وجہ کیس کی تحقیقات میں تعطل پیدا ہوگیا ہے۔
28 جولائی کو اس وقت کے وزیر اعظم شہباز شریف کی معاون خصوصی شزا فاطمہ خواجہ نے سول جج اسلام آباد کی گھریلو نوعمر ملازمہ پر تشدد کے کیس میں جج کی اہلیہ کو لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابھی ہم نے بچی سے بھی ملاقات کی ہے، بچی کی حالت اب بھی بہتر نہیں ہے، اور آکسیجن سپورٹ پر گئی ہیں۔
28 جولائی کو اسلام آباد پولیس نے سول جج کی اہلیہ کے خلاف نوعمر گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں نئی دفعہ 328-اے (بچے پر ظلم) کا اضافہ کر دیا تھا۔
30 جولائی کو بچی کی طبیعت مزید بگڑ گئی جس پر اسے لاہور جنرل ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں منتقل کر دیا گیا جہاں اس کے لیے آئندہ 48 گھنٹے انتہائی اہم قرار دیے گئے۔
یکم اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سول جج کی اہلیہ و مرکزی ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی عبوری ضمانت میں 7 اگست تک توسیع کردی تھی۔
7 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے 13 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں سول جج کی اہلیہ سومیہ عاصم کی ضمانت خارج کرکے گرفتار کرنے کا حکم دے دیا تھا جس کے بعد اسلام آباد پولیس نے ملزمہ کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا تھا۔
8 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سومیہ عاصم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے 14 روز کے لیے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، 10 اگست کو سول جج کی اہلیہ سومیہ عاصم کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست مسترد کردی گئی تھی۔
4 ستمبر کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سومیہ عاصم کی درخواستِ ضمانت بعد از گرفتاری منظور کی۔