بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق بلےباز محمد کیف نے انکشاف کیا ہے کہ 2003 کے پاک بھارت ورلڈکپ میچ کے دوران سچن ٹنڈولکر کیچ ڈراپ ہونے کے وقت عبدالرزاق مڈ آف پوزیشن سے بہت دور کھڑے تھے جس کے باعث سچن کو نئی زندگی ملی اور پاکستان کی ٹیم میچ میں واپس نہ آسکی۔  اسپورٹس ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق بلےباز محمد کیف نے کہا کہ 2003 کے ورلڈکپ میچ کے دوران پاکستان کے پاس ٹنڈولکر کو آؤٹ کرنے کا موقع تھا تاہم عبدالرزاق مڈ آف پر گیند کو پکڑنے میں ناکام رہے جس کے باعث وسیم اکرم غصے میں تھے۔  کیف نے واقعے پر کھل کر بات کرتے ہوئے کہا کہ رزاق مڈ آف پر نہیں کھڑے تھے البتہ وہ بولرز کے بہت قریب تھے، اگر رزاق سچن کا کیچ لے لیتے تو میچ کا پانسہ پلٹ سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سچن اچھی بلےبازی کررہے تھے، میرا کردار ان کا ساتھ دینا تھا۔ مجھے ڈریسنگ روم سے ہدایات ملی تھیں کہ سچن اچھی فارم میں ہیں انہیں اٹیکنگ کرکٹ کھیلنے دیں۔  پاکستان کے خلاف اس میچ میں ٹنڈولکر اور کیف نے تیسری وکٹ کی شراکت میں 103 رنز کی پارٹنرشپ قائم کی تھی جبکہ کیف نے 60 گیندوں پر 35 رنز بنائے تھے اور میچ کو بھارت کے حق میں موڑ دیا تھا۔  واضح رہے کہ بھارتی ٹیم نے اس ورلڈکپ کے فائنل تک رسائی حاصل کی تھی تاہم آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کی حزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق بلےباز محمد کیف نے انکشاف کیا ہے کہ 2003 کے پاک بھارت ورلڈکپ میچ کے دوران سچن ٹنڈولکر کیچ ڈراپ ہونے کے وقت عبدالرزاق مڈ آف پوزیشن سے بہت دور کھڑے تھے جس کے باعث سچن کو نئی زندگی ملی اور پاکستان کی ٹیم میچ میں واپس نہ آسکی۔ اسپورٹس ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق بلےباز محمد کیف نے کہا کہ 2003 کے ورلڈکپ میچ کے دوران پاکستان کے پاس ٹنڈولکر کو آؤٹ کرنے کا موقع تھا تاہم عبدالرزاق مڈ آف پر گیند کو پکڑنے میں ناکام رہے جس کے باعث وسیم اکرم غصے میں تھے۔ کیف نے واقعے پر کھل کر بات کرتے ہوئے کہا کہ رزاق مڈ آف پر نہیں کھڑے تھے البتہ وہ بولرز کے بہت قریب تھے، اگر رزاق سچن کا کیچ لے لیتے تو میچ کا پانسہ پلٹ سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سچن اچھی بلےبازی کررہے تھے، میرا کردار ان کا ساتھ دینا تھا۔ مجھے ڈریسنگ روم سے ہدایات ملی تھیں کہ سچن اچھی فارم میں ہیں انہیں اٹیکنگ کرکٹ کھیلنے دیں۔ پاکستان کے خلاف اس میچ میں ٹنڈولکر اور کیف نے تیسری وکٹ کی شراکت میں 103 رنز کی پارٹنرشپ قائم کی تھی جبکہ کیف نے 60 گیندوں پر 35 رنز بنائے تھے اور میچ کو بھارت کے حق میں موڑ دیا تھا۔ واضح رہے کہ بھارتی ٹیم نے اس ورلڈکپ کے فائنل تک رسائی حاصل کی تھی تاہم آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کی حزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔


 کراچی: یواے ای کا گرم موسم ایشیا کپ کی راہ میں حائل ہونے لگا جب کہ ٹورنامنٹ کا شیڈول پر انعقاد ایشین کرکٹ کونسل کیلیے درد سربن چکا۔

ایشیا کپ کا رواں برس 27 اگست سے 11 ستمبر تک انعقاد ہونا ہے، ٹورنامنٹ کی میزبانی کئی برس قبل ہی سری لنکا کو سونپ دی گئی تھی مگر پہلے کورونا اور پھر مصروف ترین شیڈول کی وجہ سے یہ ٹورنامنٹ منعقد ہی نہیں ہوسکا۔

دو برس کے التوا کے بعد اس سال ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا جانا ہے مگر سری لنکا میں معاشی بحران اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور پرتشدد واقعات کی وجہ سے ٹورنامنٹ کے وہاں پرمنعقد ہونے کا امکان تقریباً ختم ہوچکا ہے۔

اگرچہ سری لنکن کرکٹ بورڈ حکام کی اب بھی یہی خواہش ہے کہ ٹورنامنٹ ان کے ہی ملک میں منعقد ہو کیونکہ ایونٹ کی منتقلی سے انھیں 10 ملین ڈالر تک کے نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

میزبان ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، فوج کی گلیوں سڑکوں پر تعیناتی اور کرفیو نے ایشین کرکٹ کونسل حکام کو بھی پریشانی میں مبتلا کردیا ہے، بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری اور اے سی سی کے صدر جے شا نے حتمی فیصلے کیلیے سری لنکن بورڈ حکام سے رابطہ کرلیا ہے۔

اس حوالے سے بی سی سی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ جے شاہ نے ایس ایل سی کے صدر شمی سلوا اور چیف ایگزیکٹیو ایشلے ڈی سلوا سے فون پر بات کی ہے، جس میں وہاں کی ملکی صورتحال پر بھی بات کی گئی ہے۔

زیادہ توقع یہی ہے کہ سری لنکا کرکٹ کے حکام آئی پی ایل فائنل کے موقع پر بھارت آئیں گے جہاں پر ان کی جے شاہ سے بھی ملاقات ہوگی، اس موقع پر ایشیا کپ کے انعقاد کے حوالے سے واضح صورتحال سامنے آئے گی، آئی پی ایل فائنلز رواں ماہ ہی شیڈول ہے۔

اے سی سی کیلیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ٹورنامنٹ اگست کے آخر میں شیڈول ہے جب ممکنہ نئے میزبان یو اے ای کا موسم سخت گرم ہوتا ہے، وہاں پر ٹورنامنٹ کا انعقاد شدید گرمی کی وجہ سے کافی مشکل ہوگا۔

متحدہ عرب امارات کے علاوہ ٹورنامنٹ کے کسی اور ملک منتقلی اور بھی زیادہ مشکل ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت میں موجود کشیدگی کی وجہ سے ان دونوں ممالک میں ٹورنامنٹ منعقد نہیں ہوسکتا اور کسی دوسرے کیلیے اتنے کم نوٹس پر ایونٹ منعقد کرنا بھی بہت زیادہ مشکل ہوگا۔ ایشیا کپ کی میزبانی کے حتمی فیصلے کے لیے رواہ ماہ کے آخر تک کا انتظار کرنا پڑے گا۔


اپنا تبصرہ لکھیں