وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے طالبان کے ساتھ دنیا کے مضبوط تعلقات کی بحالی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان کے حکمرانوں کو دوبارہ عالمی تنہائی کا شکار کرنے کی صورت میں خطرناک نتائج سے خبردار کیا ہے۔
واشنگٹن کے دورے پر غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے امریکا کی جانب سے طالبان پر عدم اعتماد کے بعد افغانستان کے منجمد اثاثے سوئٹزرلینڈ کے پروفیشنل فنڈ میں منتقل جانے کے بعد متوازی گورننس قائم کرنے کے خلاف خبردار کیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے ماضی سے سیکھا ہے کہ جب ہم اپنے ہاتھ جھاڑ دیتے ہیں اور پیٹ پھیر لیتے ہیں تو ہم اپنے لیے غیر ارادی منفی نتائج اور مزید مسائل پیدا کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ معاشی تباہی، پناہ گزین کی بڑی تعداد اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے لیے نئی بھرتیوں کے خطرے کے بارے میں ہمارے خدشات، ان خدشات و تحفظات سے کہیں زیادہ ہیں جو ان کے مالیاتی اداروں سے متعلق ہو سکتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھی اسی طرح کی خیالات اور خدشات کا اظہار کیا تھا۔
کچھ سابقہ عہدیداروں کے برعکس بلاول بھٹو نے اے ایف پی کو دیے گئے انٹرویو میں طالبان کے لیے گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا۔
اس صورتحال میں جب کہ ملک میں خواتین کے حقوق کی فراہمی میں کمی ہوئی ہے بلاول بھٹو نے کہا کہ طالبان کو خواتین کے حقوق جیسے امور پر سیاسی گنجائش کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پوری تاریخ میں، مذہب کے نام پر قائم حکومتوں اور مطلق العنان حکومتوں میں معاشی بحران کے دوران حقوق دینے کا قطعی رجحان نظر نہیں آتا بلکہ وہ اپنی آبادی کو راغب رکھنے کے لیے ثقافتی مسائل اور دیگر مسائل کو تھامے رہتے ہیں۔
امریکا طالبان کے ساتھ مذاکرات سے پیچھے ہٹ گیا اور اگست میں کہا کہ انہوں نے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کا استقبال کرکے وعدوں کی خلاف ورزی کی۔
ایمن الظواہری کابل میں ایک گھر میں پائے گئے تھے اور امریکی حملے میں مارے گئے تھے۔
’بڑی طاقت کی دشمنی‘
پاکستان کے مشہور و معروف سیاسی خاندان کے فرزند آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ 34 سالہ بلاول بھٹو نے پانچ ماہ قبل کامیاب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی کے بعد سیاسی بحران کے درمیان وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالا تھا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں تقریباً 1,600 افراد، جن میں ایک تہائی تعداد بچوں کی ہے، ہلاک اور 70 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوچکے ہیں، خدشہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایسی تباہ کن قدرت آفات عام ہو جائیں گی۔
پیر کے روز بلاول بھٹو کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پاکستان کے ساتھ طویل المدتی حمایت کا وعدہ کیا۔
اس دوران اعلیٰ امریکی سفارت کار نے اسلام آباد سے بھی مطالبہ کیا تھا کہ وہ ملک میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کے سبب قریبی دوست ملک چین سے قرضوں میں ریلیف حاصل کرے۔
انٹونی بلنکن نے مزید کہا تھا کہ ’میں نے اپنے ساتھیوں پر قرضوں میں ریلیف اور تنظیم نو کے کچھ اہم معاملات پر چین کو شامل کرنے کے لیے زور دیا تاکہ پاکستان زیادہ تیزی سے سیلاب (کی تباہ کاریوں) سے نکل سکے‘۔
چین، پاکستان کا ایک اہم اقتصادی اور سیاسی پارٹنر ہے جو 54 ارب ڈالر کے اقتصادی راہداری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے جس میں انفرا اسٹرکچر تعمیر کر کے بیجنگ کو بحر ہند تک رسائی فراہم ہوگی۔
انتونی بلنکن کے ان ریمارکس کے بارے میں سوال پر بلاول بھٹو نے کہا کہ انہوں نے چین کے ساتھ بہت نتیجہ خیز بات چیت کی ہے اور امید کرتے ہیں کہ تاریخ کے بد ترین سیلاب کے بعد عالمی امداد بڑی طاقتوں کی دشمنیوں اور جیو اسٹریٹیجک مسائل کا شکار نہیں ہوگی۔
بہت سے پاکستانی بیجنگ کو ایک ایسے اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں جس پر تنقید نہیں کی جانی چاہیے، اسلام آباد میں آنے والی کئی حکومتوں نے چین میں لوگوں خاص طور پر مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر قید میں ڈالنے کے امریکی مطالبات کو مسترد کر دیا جب کہ امریکا چین کے ان اقدامات کو نسل کشی کا نام دیتا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ امریکا پسند کرے گا کہ ہم چین کے اندرونی معاملات پر مزید تبصرہ کریں۔
لیکن ہوسکتا ہے کہ اگر ہم ان تنازعات کو حل کرنا شروع کریں جنہیں اقوام متحدہ جیسے اداروں نے عالمی نوعیت کے تنازعات کے طور پر تسلیم کیا ہے تو یہ زیادہ نتیجہ خیز ہوگا۔
وہ مسئلہ کشمیر کا حوالہ دے رہے تھے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان 3 جنگوں کا باعث بن چکا ہے۔
ہندو قوم پرست بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019 میں مسلم اکثریتی مقبوضہ کشمیر سے اس کی تاریخی خودمختار حیثیت چھین لی اور دوسرے خطوں سے تعلق رکھنے والی بھارتی شہریوں کے لیے وہاں رہنے کا راستہ کھول دیا۔
بلاول بھٹو نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب 2010 میں پی پی پی کی حکومت تھی تو اس نے بھارت کے ساتھ اوپن ٹریڈ شروع کی جب کہ اس وقت منموہن سنگھ بھارتی وزیر اعظم تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی خطرہ مول لینے اور پاکستانی سیاست کے غیر فیصلوں کے لیے تیار تھے کیونکہ ہم جانتے تھے کہ دوسری جانب ایک معقول شخص موجود ہے جو جواب میں مثبت جواب دے گا لیکن بدقسمتی سے وہ گنجائش آج موجود نہیں، یہ ایک بہت مختلف بھارت ہے۔