برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کا انتخابی منشور جاری کردیا جس میں انہوں نے کرسمس کے دوران ہونے والے انتخابات کے بعد یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) معاہدے کی تکمیل کا وعدہ کیا۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں 12 دسمبر 2019 کو شیڈول انتخابات میں 3 ہفتوں سے کم وقت رہ گیا ہے لیکن کنزرویٹو اور اپوزیشن لیبر پارٹی کے درمیان مقابلہ جاری ہے اور مہم کے دوران ووٹرز سے وعدے کیے جارہے ہیں۔
بورس جانسن نے اپنے منشور میں لیبر پارٹی کے برعکس پالیسی اپناتےہوئے ٹیکس میں اضافہ نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے کہ جبکہ جریمی کوربن نے امیروں اور کاروباری طبقے پر ٹیکس بڑھانے کا منشور پیش کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق انتخابات کے حوالے سے ہونے والے سروے کے نتائج میں جانسن کی کنزرویٹو پارٹی کو برتری حاصل ہے تاہم ووٹرز کی ایک بڑی تعداد نے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے جو پولنگ کے روز نتائج کو پلٹ سکتے ہیں۔
وسطی انگلینڈ کے علاقے ٹیلفریڈ میں بورس جانسن نے اپنی پارٹی کا منشور پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘بریگزٹ کو مکمل کرلیا جائے اور ملک میں بڑے پیمانے میں سرمایہ کاری کی لہر آگئے گی’۔
بورس جانسن جب منشور کا اعلان کرنے کے لیے پہنچے تو ان کے حامیوں نے بورس کے نعرے لگائے جبکہ ان کے خلاف مظاہرہ بھی کیا جارہا تھا جو جھوٹا جھوٹا کے نعرے بلند کررہے تھے۔
انہوں نے کامیابی کی صورت میں مزدوروں کے لیے 3 ارب پونڈ کی نیشنل اسکلز اسکیم اور سڑکوں کی مرمت کے لیے اضافی 2 ارب پونڈ مختص کرنے کا اعلان کیا اور بجلی کے بلوں میں باقاعدگی کا بھی وعدہ کیا۔
لیبر پارٹی کا ردعمل
لیبرپارٹی کے ترجمان اینڈریو گوین کا کہنا تھا کہ جانسن کے منصوبے دکھاوا ہیں اور ‘یہ ایک ایسی پارٹی کی طرف سے ناامیدی کا منشور ہے جس کے پاس دس برس میں عوامی خدمات میں کٹوتی کے بعد ملک کے لیے دینے کو کچھ نہیں ہے’۔
لیبر پارٹی نے ووٹرز کی حمایت کے حصول کے لیے مختلف وعدے کر رکھے ہیں جس میں 30 لاکھ سے زائد خواتین کو امداد دینا بھی شامل ہے جو ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کے بعد کئی برسوں سے ریاست کی جانب سے پنشن کی سہولت سے محروم ہیں۔
دوسری جانب تھنک ٹینک فسکل اسٹیڈیز نے کنزرویٹو اور لیبر کی جانب سے اعلان کردہ سرمایہ کاری کے لیے فنڈز کے حوالے سے منصوبوں پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
یاد رہے کہ کنزرویٹوپارٹی کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے عوام کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دینے پر استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد 2017 میں تھریسامے کو وزیراعظم منتخب کیا گیا تھا اور انہوں نے ملک میں نئے انتخابات کرائے تھے لیکن وہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچاسکیں۔
تھریسامے کو پارلیمنٹ میں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور ناکامی کے بعد رواں برس انہیں بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا اور ایک مرتبہ پھر نیا وزیراعظم منتخب کیا گیا اور بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم بن گئے۔
برطانوی پارلیمنٹ نے بورس جانسن کے منصوبوں کو بھی ناکام بنادیا اور ان کی جانب سے پارلیمنٹ کو غیر فعال کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے غیر قانونی قرار دیا۔
بورس جانسن نے بریگزٹ میں تعطلی کے باعث ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا تھا جس کو اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن نے قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوام کو بھی اس فیصلے میں شامل کرلیا جائے جس کے بعد 12 دسمبر کو نئے انتخابات شیڈول کیے گئے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک نے 28 اکتوبر 2019 کو برطانیہ کو یونین سے علیحدگی کے لیے مزید وقت دینے پر رضامندی کا اعلان کرتے ہوئے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے 31 جنوری تک بریگزٹ میں توسیع کردی تھی۔
یورپی یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر میں اپنے بیان میں کہا کہ ‘یورپی یونین بریگزٹ میں توسیع کے لیے برطانیہ کی درخواست کو منظور کرے گی اور اس کو 31 جنوری 2020 تک توسیع دی جائے گی’۔