پاکستان سمیت دنیا بھر میں عام طور پر لوگ جراثیموں سے محفوظ رہنے کے لیے عام صابن استعمال کرنے کے بجائے ’اینٹی بیکٹیریل‘ کا لیبل لگے صابن استعمال کرتے ہیں۔
’اینٹی بیکٹیریل‘ صابن بنانے والی کمپنیوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ مذکورہ سوپ ہر طرح کے جراثیموں یا ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو پیدا ہونے سے روکتے ہیں۔
اگرچہ کمپنیوں کا دعویٰ کسی حد تک درست ہے، تاہم ایک تحقیق کے مطابق عام مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بعض ’اینٹی بیکٹیریل‘ صابن عام سوپ کے مقابلے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا میں شائع ایک تحقیق کے مطابق حفظان صحت پر کام کرنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ ہر طرح کے صابن میں ’اینٹی بیکٹیریل‘ اجزا موجود ہوتے ہیں، اس لیے ہر صابن میں جراثیموں کو ختم کرنے کی اہلیت موجود ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ چوں کہ صابن کی تیاری میں ایسے کیمیکل استعمال ہوتے ہیں جو جراثیموں یا ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو پیدا ہونے سے روکتے ہیں، لہٰذا اس لیے ’اینٹی بیکٹیریل‘ کے لیبل والے صابن مزید کیمیکل سے لدے ہوں گے اور ان کے خطرات ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ بعض کمپنیاں ’اینٹی بیکٹیریل‘ صابن میں ’ٹرائکلو کاربان‘ اور اینٹی مائیکرو بیال‘ نامی کیمیکل کا استعمال کیا جاتا ہے جو عام صابن میں استعمال ہونے والے کیمیکل کے مقابلے زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں خطرناک ’اینٹی بیکٹیریل‘ صابنوں کی وضاحت نہیں کی گئی، تاہم بتایا گیا کہ ایسے صابن عام انسان کی صحت کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ’اینٹی بیکٹیریل‘ صابن کے استعمال سے کے ’تھائراڈ‘ کے مسائل سمیت مختلف قسم کے ’ہارمون‘ اثر انداز ہوسکتے ہیں اور ایسے صابنوں کا ’نظام ہاضمہ‘ پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ تقریبا دنیا کے ہر صابن میں ایسے اجزا اور کیمیکل شامل ہوتے ہیں جو جراثیموں کو مارنے کا کام کرتے ہیں، اسی طرح ہر صابن جسم کی صفائی کے لیے بھی موزوں ہوتا ہے، تاہم ’اینٹی بیکٹیریل‘ کے کچھ نقصانات ہوسکتے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔