وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے میڈیا پرسن اور تجزیہ کار محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کرتے ہوئے ان کے خلاف دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔
ایف آئی اے کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کی شکایت پر محسن بیگ کو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا جس کے بعد انہیں تھانہ مارگلہ منتقل کردیا گیا۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے محسن بیگ کے گھر میں چھاپہ مارا، اس موقع پر ایف آئی اے کے پاس عدالت کی جانب سے حاصل کیے گئے سرچ اینڈ سیز وارنٹ بھی موجود تھے، دوران کارروائی ملزم محسن بیگ، ان کے صاحبزادے اور ملازمین نے ایف آئی اے ٹیم پر فائرنگ کی اور دو افسران کو یرغمال بنا کر زدوکوب کیا گیا۔
تاہم ملزمان کے پاس گولیاں ختم ہونے پر محسن بیگ کو گرفتار کیا گیا۔
یاد رہے گزشتہ دنوں نجی چینل ‘نیوز ون’ پر نشر کیے جانے والے پروگرام میں وزیر اعظم کی جانب سے 10 وزراتوں کو بہترین کارکردگی کا ایوارڈ دینے کا معاملہ زیر بحث آیا تھا، جس پر محسن بیگ سمیت دیگر مہمانوں نے نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔
پیمرا کے نوٹس کے مطابق اینکر غریدہ فاروقی نے اپنے پروگرام میں شریک مہمان سے سوال کیا کہ مراد سعید کی وزارت کے پہلے نمبر پر آنے کی حقیقی وجہ کیا ہے، جس کے جواب میں محسن بیگ نے کہا کہ وہ نہیں جانتے لیکن وجہ ‘ریحام خان کی کتاب میں لکھی گئی ہے’۔
محسن بیگ کی گرفتاری کے بعد وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے ٹوئٹ کیا اور کہا کہ یہ قانون ہے۔
‘اہل خانہ سے نامناسب رویہ اختیار کیا گیا’
محسن بیگ کے وکیل نے اسلام آباد کی ضلعی سیشن عدالت میں ان کی گرفتاری کے خلاف درخواست دائر کی جس پر ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے سماعت کی، عدالت نے بیلف مقرر کر تے ہوئے محسن بیگ کو عدالت پیش کرنے کا حکم دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایس پی اور ڈی ایس پی سے وارنٹ گرفتاری اور سرچ وارنٹ مانگے گئے لیکن انہوں نے وارنٹ نہیں دیے، ایس پی نے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد کو گھر میں دھاوا بولنے کا حکم دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سرچ وارنٹ کے سوال پر ایس پی کا کہنا تھا کہ وہ وارنٹ کے ساتھ واپس آئیں گے، وہ واپس گئے اور لوگوں کو ان کے گھر میں دھاوا بولنے کے لیے کہا، بعدازاں وہ گھر میں داخل ہوگئے، وہ کون تھے اس حوالے سے کوئی علم نہیں ہے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے محسن بیگ کے بچوں کو مارا، موبائل فون توڑ دیے اور محسن بیگ کو ساتھ لے گیے۔
مقدمے میں اقدام قتل، حبس بے جا کی دفعات کے علاوہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 بھی شامل کی گئی ہے، عدالتی بیلف نے محسن بیگ کے خلاف مقدمے اور گرفتاری کی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔
مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ محسن بیگ نے نجی پروگرام میں مراد سعید کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی، نجی ٹی وی پروگرام میں بے بنیاد کہانی اور توہین آمیز ریمارکس دیے گئے، پروگرام کو سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا گیا تھا۔
متن میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ اقدام سے عوام میں مراد سعید کی ساکھ کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بعد ازاں مرگلہ پولیس اسٹیشن کی جانب سے فراہم کردہ بیلف کی رپورٹ پر کہا گیا کہ محسن بیگ کے خلاف درج مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 148 (فساد اور ہتھیار کا الزام)، 149 (لوگوں کو غیرقانونی طور پر جمع کرنا)، 186 (سرکاری ملازمین کو انجام دہی دے روکنا)، 324 (اقدام قتل)، 324 (ملزم کو جانچنے کا اختیار)، 353 (سرکاری ملازمین کو ان کی ذمہ داری کی انجام دہی سے روکنا) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 شامل کی گئی ہے۔
اپوزیشن کا اظہار مذمت
قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے محسن بیگ کی گرفتاری پر مذمت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’حکومت کتنی خوفزدہ ہے، محسن بیگ پہلے وزیر اعظم کے دوست تھے۔’
دریں اثنا پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ گرفتاری سے وزیر اعظم کی ’کمزوری‘ ظاہر ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان بہت کمزور ہیں جس کی وجہ سے وہ خود پر ہونے والے تنقید سے خوفزدہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’محسن بیگ کو ان کے خاندان کے سامنے گرفتار کیا گیا جیسے وہ کوئی قیدی ہیں۔’