انٹر بینک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ آج بھی جاری رہا اور انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 169 روپے 60 پیسے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا۔
اس حوالے سے کرنسی ڈیلرز نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈالر کی قیمت روکنے کے لیے مارکیٹ میں مداخلت نہیں کی تو ڈالر مزید مہنگا ہوجائے گا۔
ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے امپورٹرز نے بھی ڈالر کی پیشگی بکنگ کرانا شروع کردی ہے جس سے انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ گئی ہے۔
گزشتہ روز ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ انٹر بینک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر 168 روپے 90 پیسے کی بلند ترین سطح پر جاپہنچا تھا۔
اس کی وجوہات سے متعلق ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا تھا کہ درآمد کنندگان کی جانب سے ڈالر کی خریداری بڑھنے اور افغانستان میں ڈالر کی اسمگلنگ کی وجہ سے مقامی سطح پر ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے واضح کیا تھا کہ کئی سالوں بعد ڈالر کی بلیک مارکیٹ دوبارہ شروع ہوگئی ہے اور بلیک مارکیٹ میں ڈالر، اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں 3 روپے اوپر میں فروخت ہو رہا ہے۔
10 ستمبر 2021 کو ڈالر 13 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا جب یہ ریکارڈ 168 روپے 20 پیسے پر ٹریڈ کرنے کے بعد بند ہوا۔
اس سے قبل گزشتہ برس 26 اگست کو ڈالر 168 روپے 43 پیسے کی سب سے بلند سطح پر پہنچا تھا جس کے بعد کمی کا سلسلہ جاری تھا۔
تاہم بلند کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور درآمدی بل سمیت متعدد وجوہات کی بنا پر رواں برس مئی سے ڈالر کی قدر میں اضافہ جاری ہے۔
قبل ازیں گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا تھا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ قدرتی بات ہے کیوں کہ مالی سال 2022 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے 2 سے 3 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باوجود ایکسچینج ریٹ نہیں بڑھا تو اس کا مطلب ہے کہ ایکسچینج ریٹ کو برقرار رکھا جارہا ہے، جو مصنوعی اور ملکی معیشت کے لیے خطرناک ہے۔
مقامی کرنسی کی قدر میں تنزلی ایل این جی سمیت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو لپیٹ میں لے گی، جس سے مہنگائی اور پیداواری اخراجات بڑھ رہے ہیں، اس کے نتیجے میں اضافی اخراجات کے ساتھ برآمدات کے اضافے پر زور دینا مشکل ہوگا۔