امریکی ماہرین طب نے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ایک انقلابی دوا کی تیاری میں پیشرفت کی ہے جو انسولین کے انجیکشن کی ضرورت ختم کردے گی۔
انسولین ٹیبلیٹ انسانی جسم کے لیے اہم ترین جز کو مریض کے دوران خون تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوگی۔
متعدد ادویات خصوصاً پروٹینز سے بننے والی دوا منہ کے ذریعے نہیں کھائی جاسکتی کیونکہ وہ غذائی نالی میں جاکر ٹکڑے ہوجاتی ہے اور کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
مگر بوسٹن کے برگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل، میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی اور ڈنمارک کی دوا ساز کمپنی نووو نورڈسک کے محققین نے اس نئے طریقہ کار کو تیار کیا جس کی آزمائش جانوروں پر کی گئی۔
ایک بلیوبیری کے حجم کے کیپسول میں سکڑ جانے والی سوئیاں ہوتی ہیں جو جسم کو انسولین فراہم کرکے سکڑ جاتی ہیں۔
اس ٹیکنالوجی کو L-SOMA کا نام دیا گیا ہے اور انسولین کی فراہمی کے بعد وہ معدے سے گزر کر جسم سے خارج ہوجاتی ہے۔
محققین کے مطابق اس کیپسول میں 2 اسپرنگز ہیں، جن میں سے ایک حرکت میں آکر دوا کو جسم میں انجیکٹ کرنے کا کام کرتا ہے اور دوسرا اسپرنگ سوئیوں کو سکیڑ دیتا ہے، اس عمل کو ایک حل ہونے والے شوگر پیلٹ سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پری کلینکل ٹرائلز میں ہم نے جانوروں میں کسی قسم کی تکلیف یا نقصان کے آثار دریافت نہیں کیے، اب اس ٹیکنالوجی کے کلینکل ٹرائلز اور انسانوں پر آزمائش کرکے اس کے محفوظ ہونے کا تجزیہ کیا۔
جانوروں پر ٹرائل کے دوران ماہرین نے انسولین، ایڈرنالائن، جوڑوں کی ایک ورم کش دوا اور ایک ذیابیطس کی دوا کو ڈیوائسز کے اندر منتقل کیا۔
جانوروں کے خون کے نمونوں سے انکشاف ہوا کہ یہ کیپسول کسی انجیکشن کی طرح مؤثر انداز سے دوا کو جسم میں پہنچاتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا نیڈل میکنزم ٹھیک کام کرتا ہے۔
نتائج سے توقع پیدا ہوئی ہے کہ مستقبل قریب میں ذیابیطس کے مریضوں کو زندگی بھر کے لیے روزانہ انسولین کے انجیکشنز کے استعمال کی ضرورت نہیں ہوگی اور یہ طریقہ کار ویکسنیشن کے عمل میں بھی مددگار ثابت ہوسکے گا۔
محققین کے مطابق ایک کیپسول متعدد انواع کا لوڈ بشمول پروٹینز اور دیگر جسم کو پہنچا سکے گا اور یہ کووڈ ویکسین کی ممکنہ ڈیلیوری کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے ، مگر اس کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر بائیوٹیکنالوجی میں شائع ہوئے۔