الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی سماعت


اسلام آباد: الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کی اسکروٹنی کمیٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ سماعت آج سے شروع کرے گی۔

دوسری جانب پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے دعویٰ سامنے آیا کہ چیف الیکشنر کمشنر کے متبادل کی تلاش کا آغاز کردیا گیا ہے جن کے عہدے کی مدت 6 دسمبر کو اختتام پذیر ہورہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے رکنِ اسمبلی فرخ حبیب نے بھی اپوزیشن کی 2 مرکزی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خلاف الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس دائر کردیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ اس کی سماعت بھی ان قواعد و ضوابط پر کی جائے جن پر پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس کی سماعت کی جارہی ہے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس دائر کرنے والے اکبر ایس بابر نے 23 نومبر کو ایک اور درخواست دائر کی تھی جس میں الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کمیشن اسکروٹنی کمیٹی سے اسٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں میں موجود پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی تفصیلات منگوائے اور کمیٹی سے تمام ریکارڈ طلب کرکے خود فیصلہ کرے۔

مذکورہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن پہلے ہی 70 مرتبہ سماعتیں کرچکا ہے لیکن پھر بھی پی ٹی آئی، الیکشن کمیشن اور اسکروٹنی کمیٹی میں کوئی ریکارڈ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔

واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت ممنوعہ ذرائع سے فنڈز وصول کرنے کی مرتکب ہوئی تو پارٹی تحلیل ہوجائے گی اور قومی اسمبلی، سینیٹ، صوبائی اسمبلی کے ساتھ ساتھ مذکورہ پارٹی کے ٹکٹ پر بلدیاتی انخاب لڑنے والے اراکین بھی بقیہ مدت کے لیے نااہل کردیے جائیں گے۔

الیکشن ایکٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پارٹی تحلیل کرنے کے اعلامیے کے 15 روز کے اندر حکومت ہی معاملہ سپریم کورٹ میں بھجوائے گی جس کے بعد سپریم کورٹ اس فیصلے کو برقرار رکھے گی کہ اس قسم کی پارٹی کو فوراً تحلیل کرنا چاہیے۔

پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں اب تک کیا ہوا؟

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے منحرف بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں مذکورہ کیس دائر کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے ‘ہنڈی’ کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔

ان کا یہ بھی الزام تھا کہ جو فنڈز بیرونِ ملک موجود اکاؤنٹس حاصل کرتے تھے، اسے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں پوشیدہ رکھا گیا۔

جس پر گزشتہ برس مارچ 2018 میں ایک اسکروٹنی کمیٹی قائم کی گئی تھی جسے ایک ماہ میں پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کا آڈٹ کرنے کا حکم دیا گیا تھا بعدازاں اس کی مہلت میں غیر معینہ مدت تک توسیع کردی گئی تھی۔

رواں برس یکم اکتوبر کو ای سی پی نے غیر ملکی فنڈنگ کیس کی جانچ پڑتال میں رازداری کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے دائر 4 درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

10 اکتوبر 2019 کو الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کمیٹی کے ذریعے تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کے آڈٹ پر حکمراں جماعت کی جانب سے کیے گئے اعتراضات مسترد کردیے تھے۔

چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے اسکروٹنی کمیٹی کو کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔

23 اکتوبر کو پی ٹی آئی وکیل 10 اکتوبر کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے اسکروٹنی کمیٹی کے اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے تھے۔

7 نومبر کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے مذکورہ فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور مؤقف اختیار کیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل مکمل نہ ہونے کے باعث 10 اکتوبر کے حکم کا کوئی قانونی جواز نہیں لہٰذا اسے معطل کر کے غیر ملکی فنڈنگ کی اسکروٹنی کے لیے قائم خصوصی کمیٹی کو بھی کام سے روکا جائے۔

بعد ازاں اسکروٹنی کمیٹی کے 12 نومبر کو مقرر کردہ اسکروٹنی اجلاس سے ایک روز قبل پی ٹی آئی نے غیر ملکی فنڈنگ کے ذرائع کی تحقیقات روکنے اور ای سی پی کا 10 اکتوبر کا حکم معطل کرنے کی ایک اور درخواست دائر کردی تھی۔

12 نومبر کو پی ٹی آئی نے کمیٹی کو بتایا کہ جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ پٹیشن پر فیصلہ نہیں کردیتی وہ کمیٹی کی سماعت میں شریک نہیں ہوسکتی اور نیا وکیل مقرر کرنے کے لیے مزید وقت بھی درکار ہے حالانکہ عدالت نے حکم امتناع بھی نہیں دیا تھا۔

پی ٹی آئی کی جانب سے اسکروٹنی کا عمل روکنے کی درخواست جسٹس محسن اختر کیانی کے ایک رکنی بینچ میں 20 نومبر کو سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھی، تاہم پی ٹی آئی وکیل شاہ خاور کے عدم موجودگی کے باعث سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔


اپنا تبصرہ لکھیں