وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کے بدلتے حالات پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کی درخواست کے باوجود ہمیں نہیں بلایا گیا۔
اسلام آباد میں ترجمان دفترخارجہ زاہد حفیظ چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم کی زیر صدارت افغانستان میں بدلتے حالات کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ پاکستان کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں دعوت دی جانی چاہیے تھی کیونکہ ہم افغانستان کے نہ صرف براہ راست پڑوسی ہیں بلکہ ہم وہاں کے حالات سے افغانستان کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان میں امن و استحکام کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں اور افغانستان میں امن عمل کے لیے سہولت کاری کی ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم نے وہاں شرکت کے لیے باقاعدہ درخواست دی لیکن بدقسمتی سے اس کو منظور نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب بھارت اگست کے لیے سلامتی کونسل کی صدارت کا آغاز کررہا تھا تو ہم یاد دہانی کروائی تھی کہ بھارت مقاصد کے لیے کام کرے گا، ایک ایسا ملک جو مستقل رکن کا امیدوار بھی لیکن بدقسمتی سے روایت کے مطابق کردار ادا نہیں کیا اور اپنی ذمہ داری کو بخوبی نہیں نبھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کو بریفنگ دینے کے لیے پاکستان کی درخواست پر بھارت ہمارے مؤقف سے اتفاق کر رہا تھا لیکن سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ سب جانتے ہیں پاکستان نے امن عمل کے لیے سہولت کاری کی ہے، افغانستان میں ہمارا کردار بطورسہولت کار جاری رہے گا لیکن ضمانتی کے طور پر نہیں ہوگا، سوائے سہولت کاری کے ہم ضمانت نہیں دے سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے، پاکستان مسلسل اس بات کو حمایت کر رہا ہے کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، آگے بڑھنے کے لیے مذاکرات کے ساتھ واحد سیاسی حل ہے، جس سے اب عالمی برادری اتفاق کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے طالبان کو 2019 میں طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا اور دوحہ میں فروری 2020 میں طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدے کے لیے پاکستان نے سہولت کاری کی۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ستمبر 2020 میں بین الافغان مذاکرات کے لیے مدد کی اور دسمبر 2020 میں پاکستان نے فریقین کے درمیان قواعد و ضوابط کے حوالے سے بھی معاونت کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بین الافغان مذاکرات کے لیے سہولت دینے کی خاطر دوحہ میں سہ فریقی امریکا، روس اور چین کے گروپ میں شامل ہوا اور آنے والے ہم سہ فریقی مذاکرات کے حوالے سے نیک ارادے رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) نے افغانستان میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات پر غور کے لیے کا 6 اگست کو ہنگامی اجلاس طلب کر لیا تھا جہاں پاکستان کو شرکت کی دعوتی نہیں دی گئی تھی۔
سلامتی کونسل کا اجلاس افغانستان کے بڑے شہروں میں طالبان کے حملوں اور وزیر دفاع بسم اللہ محمدی کی رہائش گاہ پر حملے کے بعد افغان وزیر خارجہ حنیف اتمر کی بھارتی ہم منصف ایس جے شنکر سے گفتگو کے بعد بلایا گیا تھا۔
افغان وزیر خارجہ نے بھارتی ہم منصب سے گفتگو کے دوران مبینہ طور پر سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کے معاملے پر بحث میں شرکت کی اجازت نہ دینے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے مخالفین کو مدعو کرکے اسلام آباد پر الزامات لگانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ افغانستان کے قریبی پڑوسی کی حیثیت سے امن عمل میں مثبت کردار پر عالمی برادری کی پذیر آرائی حاصل کی، پاکستان کی سلامتی کونسل کے صدر سے درخواست ہے کہ وہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرے اور افغان امن عمل سے متعلق اپنا نقطہ نظر پیش کرے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ’دوسری جانب، کونسل کے پلیٹ فارم کو پاکستان کے خلاف جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے فراہم کردیا گیا تھا‘۔