تحریر: راجہ زاہد اختر خانزادہ
سدھر جاؤ، ورنہ میں تمہاری پینٹیں اتار دوں گا!”
یہ جملہ اپنے دور میں پاکستان کے سابق آمر جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کے اعلیٰ بیوروکریٹس کو ایک اجلاس میں مخاطب کرتے ہوئے استعال کیا تھا۔ مگر اس دوران وہاں موجود ایک شخص ایسا بھی تھا جس نے نہ صرف اس دھمکی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، بلکہ اپنی جرات مندی سے ضیاء الحق کو منہ پر ایسا تاریخی جواب دیا کہ وہ جملہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بن گیا۔ اس برجستہ جواب کے بعد اس شخصیت کو جرنل ضیا نے دوسرے کمرے میں طلب کیا اور ان پر معذرت کے لیے زور دیا مگر وہ اپنے الفاظ پر قائم رہا اور معذرت نہیں کی آج اس کا نام تاریخ میں امر ہو چکا ہے۔ اس بہادر شخصیت کا نام تھا جسٹس خواجہ محمد احمد صمدانی یہ کہانی نئی بھی ہے، پرانی بھی۔ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے والے بدلتے رہتے ہیں، مگر جبر، خوف اور اصولوں کی بولی لگانے کا کھیل کبھی نہیں بدلتا۔ کچھ لوگ ضمیر بیچ کر انعام و اکرام پاتے ہیں، اور کچھ اصولوں پر سودے بازی نہ کر کے تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن جاتے ہیں۔ تاریخ ہمیشہ انہیں یاد رکھتی ہے جو ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیتے ہیں، اور جو اپنے فائدے کے لیے سچ کا گلا گھونٹتے ہیں، انہیں وقت کی دھول بھی پہچاننے سے انکار کر دیتی ہے۔
ستمبر 1977 کی ایک رات، جب ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا، تو ان کے وکلاء نے لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دی۔ مگر ججوں کی بینچ پر بزدلی اور خوف کا سایہ تھا۔ کوئی بھی جنرل ضیاء الحق کی ناراضگی مول لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ ہر آنکھ ڈری ہوئی، ہر زبان بند تھی۔ مگر ایسے وقت میں ایک شخص سامنے آیا، جس نے انصاف کا پرچم بلند کرنے کی ہمت کی خواجہ محمد احمد صمدانی جنکو جسٹس کے ایم اے صمدانی بھی کہا جاتا تھا، انہوں نے بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے میں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا اور ضمانت منظور کرلی۔
یہ فیصلہ ضیاء الحق کو برداشت نہ ہوا۔ جسٹس صمدانی پر دباؤ ڈالا گیا، مگر وہ ڈٹے رہے۔ تین دن بعد فوج نے بھٹو کو دوبارہ گرفتار کر لیا، اور جسٹس صمدانی کو لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج کے منصب سے ہٹا کر وفاقی سیکریٹری قانون بنا دیا گیا۔ ان کی جگہ وہی شخص لایا گیا جو ضیاء کی جیب میں تھا بکاؤ جج مولوی مشتاق، جس نے بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پھر وہ دن آیا جب ضیاء الحق نے وفاقی سیکریٹریوں کا اجلاس بلایا۔ آمریت کے نشے میں بدمست ضیاء نے بیوروکریٹس کو دباؤ میں لانے کے لیے کہا:
“سدھر جاؤ، ورنہ میں تمہاری پینٹں اتار دوں گا!”
پورے ہال میں سناٹا چھا گیا۔ بیوروکریٹس نے ایک دوسرے کی طرف بے بسی سے دیکھا۔ مگر پھر ایک آواز گونجی، ایک ایسی للکار جس نے آمریت کے چہرے پر تمانچہ جڑ دیا۔
جسٹس کے ایم اے صمدانی نے ضیا کی دھمکی کے بعد اسوقت بلند آواز میں کہا:
“آپ نے اپنے کتنے جنرلز کی پینٹیں اتاری ہیں؟ پہلے آپ اپنے جنرلز کی پتلونیں اتاریں، ہم خود ہی اپنی اتار دیں گے!”
یہ وہ جملہ تھا جس نے ضیاء الحق کے غرور کو چکنا چور کر دیا۔ اجلاس وہیں ملتوی ہو گیا، ضیاء الحق غصے سے کانپتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ مگر کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ جب سب سیکریٹری جانے لگے تو جنرل ضیاء کے اسٹاف آفیسر، میجر جنرل خالد محمود عارف (کے ایم عارف) نے جسٹس صمدانی کو روکا اور کہا کہ ضیاء آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ آمریت کے دربار میں گئے تو ضیاء الحق نے غصے سے کہا:
“آپ نے اجلاس میں غلط بات کی، معذرت کریں!”
جسٹس صمدانی نے بغیر جھکے جواب دیا:
“میں معذرت کرنے کو تیار ہوں، مگر شرط یہ ہے کہ دوبارہ اجلاس بلایا جائے،میں وہی الفاظ دہراؤں گا اور تب معذرت کروں گا!”
یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئے، سر بلند، ضمیر مطمئن، حق پر ثابت قدم۔
1981 میں انہیں ایک سازش کے تحت عدلیہ میں واپس آنے کی پیشکش کی گئی، جسکی شرط تھی پی سی او کے تحت حلف برداری۔ یہ وہ لمحہ تھا جہاں کئی ججز جھک گئے، کئی نے سودے بازی کرلی، کئی نے اپنے قلم بیچ دیے، مگر جسٹس صمدانی اصولوں پر سودے بازی کے لیے نہیں بنے ہی نہیں تھے۔ انہوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کر دیا اور عزت کے ساتھ نوکری کو خیرآباد کہہ کر گھر چلے گئے۔
مگر تاریخ نے فیصلہ دیا۔ جنرل ضیاء الحق، جس نے اصولوں کو روندا، جس نے انصاف کو قتل کیا، وہ طیارہ میں جلکر راکھ بن گیا جبکہ اسکے جعلی دانتوں کو مٹی میں دفن کیا گیا۔ مگر آج تاریخ میں اس کا ذکر صرف گالی کے طور پر ہوتا ہے، مگر جسٹس کے ایم اے صمدانی کا نام آج بھی سنہرے الفاظ میں زندہ ہے۔ یہ ہے وہ تاریخ، جو اپنا فیصلہ آپ سناتی ہے کہ کون زندہ رہے گا اور کون وقت کی دھول میں کھو جائے گا۔ جو اصولوں پر کھڑے رہے، وہ تاریخ کے ماتھے کا جھومر بنے، اور جو اقتدار کی غلامی میں جھک گئے، وہ ایک بھولی بسری داستان بھی نہ رہے۔
تاریخ کے صفحات خونچکاں گواہ ہیں کہ طاقت کا نشہ ہمیشہ حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتا ہے، مگر حق کی فطرت ہے کہ وہ سر بلند رہتا ہے، ہر طوفان میں، ہر آندھی میں، ہر جبر کے مقابل۔ دنیا نے ہمیشہ دو قسم کے لوگ دیکھے ہیں ایک وہ جو اپنے ضمیر کا سودا کر کے تخت و تاج کے قصیدے گاتے ہیں، جو وقت کے فرعونوں کے دربار میں سجدہ ریز ہوتے ہیں، اور انعام و اکرام کے عوض اپنی روح گروی رکھ دیتے ہیں۔ ایسے لوگ بظاہر فتح مند نظر آتے ہیں، مگر تاریخ انہیں ہمیشہ ایک بدنما داغ کی طرح یاد رکھتی ہے، جہاں ان کے نام کے ساتھ رسوائی کا سایہ جڑا رہتا ہے۔ جبکہ یہاں وہ لوگ بھی ہیں جو اپنے اصولوں کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار رہتے ہیں، جو طوفانوں سے ٹکرا جاتے ہیں مگر جھکتے نہیں، جو سچائی کے چراغ کی حفاظت کرتے ہیں چاہے ان کے ہاتھ جل ہی کیوں نہ جائیں۔ جسٹس کے ایم اے صمدانی جیسے لوگ ہمیں سکھاتے ہیں کہ ضمیر کی آواز سب سے بڑی عدالت ہے، اور سچائی کا راستہ کٹھن سہی، مگر وہی انسان کو لازوال کر دیتا ہے۔ یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ جب ظلم تمہیں دبانے کی کوشش کرے، جب طاقت تمہاری روح کو نیلام کرنے کی دھمکی دے، تو ڈرنے کے بجائے للکارنے کا حوصلہ پیدا کرو۔ کیونکہ تاریخ کی عدالت میں فیصلے دیر سے ہوتے ہیں مگر انصاف ہمیشہ سچ کے حق میں ہی آتا ہے۔
اقتدار، دولت، شہرت—یہ سب وقت کے دھارے میں بہہ جانے والے سراب ہیں، مگر کردار ایک ایسی لکیر ہے جو وقت کے طوفان میں بھی نہیں مٹتی۔ جو اپنے اصولوں پر سودے بازی کر کے جیتنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ درحقیقت ہمیشہ کے لیے ہار جاتے ہیں۔ مگر جو سچائی کے چراغ کو تھامے رکھتے ہیں، وہ فنا ہو کر بھی امر ہو جاتے ہیں۔