وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ آج وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب نہیں ہوگا اس پر سب متفق ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے آج صبح ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں منحرف اراکین کے ووٹ شمار کیے بغیر آج ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
پی ٹی آئی کی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے بینچ تشکیل دیا تھا، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے جاری کردہ روسٹر کے مطابق 3 رکنی بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل ہیں۔
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کی جانب سے سپریم کورٹ میں بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے اختلافی نوٹ دیا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ جس جج نے اختلافی نوٹ دیا ہے، وہ ایک نکتے پر متفق بھی ہوئے ہیں، سادہ سی بات ہے کہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنہوں نے 197 ووٹ لیے ہیں ان میں سے 25 ووٹ نکال دیے ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اراکین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی درخواست میں یہ بات نہیں، ہم آپ کی درخواست کو پڑھ کر آئے ہیں، بنیادی طور پر آپ یہ مانتے نہیں کہ فیصلہ آپ کے حق میں ہوا ہے، جس پر بابر اعوان نے کہا کہ اصولی طور پر اس فیصلے کو مانتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 4 ججز نے آج کی اور ایک جج نے کل کی تاریخ دی ہے، کیا آپ کل کی تاریخ پر راضی ہیں؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جو اراکین کہیں گئے ہوئے ہیں وہ 24 اور 48 گھنٹوں میں پہنچ سکتے ہیں۔
‘اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ جو ارکان دستیاب نہیں ان کا انتظار کیا جائے، جسٹس اعجاز الاحسن
بابر اعوان نے کہا کہ 16 اپریل کو وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن ہوا جس میں ایوان میں لڑائی ہوئی، لڑائی جھگڑے کے بعد پولیس کو ایوان میں طلب کیا گیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دوسری سائیڈ کا کہنا ہے انہوں نے 197 ووٹ لیے، عدالت نے کہا کہ رن آف الیکشن میں جو اکثریت حاصل کر لے وہ منتخب ہوگا، لاہور ہائی کورٹ نے ان 25 ووٹو ں کا نکال کر گنتی کا حکم دیا تھا، عدالت نے پہلے ووٹوں کی گنتی کا حکم دیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کے کچھ اراکین دستیاب نہیں ہیں، موجودہ کا مطلب ہے اس وقت جتنے لوگ ایوان میں دستیاب ہوں وہ ووٹ دیں، میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا جو ارکان دستیاب نہیں ان کا انتظار کیا جائے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ نے کہا ہے 197 میں سے 25 نکال دیں، 25 ووٹ نکالنے کے بعد حمزہ شہباز کا انتخابات درست نہیں رہتا، انتخاب کے دوسرے راؤنڈ میں سادہ اکثریت یعنی 186 کی ضرورت نہیں، آپ کا مؤقف ہے کہ ہمارے ارکان بیرون ملک ہیں۔
بابر اعوان نے مؤقف اپنایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ ارکان کا انتظار کیا جائے، مناسب وقت ملنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ ارکان ووٹنگ میں شامل ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آپ کے حق میں ہے، ہم کس طرح اجلاس کی تاریخ میں مداخلت کریں، کیا اختلافی جج والی 2 جولائی کی تاریخ ووٹنگ کے لیے مقرر کردیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے ارکان کو صوبائی اسمبلی پہنچنے مین کتنے گھنٹے لگیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اختلافی نوٹ میں ووٹنگ کی تاریخ کل کی ہے، کیا آپ کل ووٹنگ پر تیار ہیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ملک کے اندر موجود ارکان ایک دن میں پہنچ سکتے ہیں۔
دوران سماعت پی ٹی آئی نے دوبارہ انتخابی عمل کے لیے 7 دن کا وقت مانگ لیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 7 دن کا وقت دینا مناسب نہیں، آپ کے ارکان کو اسمبلی میں پہنچنے میں 24 گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
بابر اعوان نے کہا کہ ہمارے ارکان کا نوٹی فکیشن الیکشن کمیشن نے جاری نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ پنجاب سات دن تک وزیر اعلی کے بغیر رہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں کیا لکھا ہے کہ وزیر اعلیٰ دستیاب نہ ہو تو صوبہ کون چلائے گا، وزارت اعلیٰ کا جب الیکشن ہوا تو ’63 اے‘ واضح نہیں تھا۔
بابر اعوان نے کہا کہ میرے ذہن میں دس دن کا وقت تھا لیکن سات دن کا عدالت سے مانگا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلے مناسب وقت پر بات مکمل کریں پھر دوسرا نقطہ سنیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانونی طریقے سے منتخب وزیر اعلیٰ کو گورنر کام جاری رکھنے کا کہہ سکتا ہے، جب وزیر اعلیٰ نہیں ہوگا تو کابینہ بھی موجود نہیں رہے گی۔
ضمنی الیکشن تک صوبے کو چلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ چاہتی ہے کہ صوبہ میں حکومت قائم رہے، نگراں وزیر اعلیٰ تب ہو سکتا ہے جب الیکشن ہو رہا ہو، تحریک انصاف نے اپنی اکثریت ثابت کرنی ہے، حمزہ شہباز کو ملے 25 ووٹ نکل گئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 25 نکال کر تحریک انصاف کے کتنے ارکان باقی ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ 25 ووٹ نکال کر ہمارے ارکان 169 بنتے ہیں، اس پر عدالت نے کہا کہ اس کا مطلب ہے آپ کے پاس اکثریت نہیں ہے، جس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ ایوان میں کسی کے پاس اکثریت نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر صوبے کے معاملات کو چلائے یہ غیر آئینی ہوگا، 17 جولائی کو عوام نے 20 نشستوں پر ووٹ دینے ہیں، ضمنی الیکشن تک صوبے کو چلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ عوام خود فیصلہ کریں تو جمہوریت زیادہ بہتر چل سکتی ہے، گورنر کو صوبہ چلانے کا اختیار دینا غیر آئینی ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کے تحت منتخب نمائندے ہی صوبہ چلا سکتے ہیں، ہم آپ کو آدھا گھنٹہ دیتے ہیں سر جوڑیں اور سوچیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر ہی نگراں حکومت بن سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر کو صوبہ چلانے کا اختیار دینا غیر آئینی ہوگا، آئین کے تحت منتخب نمائندے ہی صوبہ چلا سکتے ہیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کیس کی مزید سماعت 2 بجکر 45 منٹ تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ اس نقطے پر تیاری کریں، آدھے گھنٹے میں دوبارہ سماعت ہوگی۔
حمزہ شہباز، پرویز الہٰی کی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں طلبی
دوبارہ سماعت کے آغاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آج وزیر اعلیٰ کا انتخاب نہیں ہوگا اس پر سب متفق ہیں، مسئلے کے تین حل ہیں۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کو ویڈیو لنک پر لاہور رجسٹری میں طلب کر لیا۔
عدالت عظمیٰ کے طلب کرنے پر وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری پہنچ گئے۔
سماعت کے دوران اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی نے حمزہ شہباز کو وزیراعلی پنجاب برقرار رکھنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ضمنی الیکشن والی بات وزن کھتی ہے، میرے حساب سے سات دن کا وقت دینا بہت زیادہ ہے، حمزہ شہباز کی وزارت اعلی پر اعتراض نہیں تو نقطہ صرف وقت کا ہے، واضح ہے کہ آج چار بجے والا الیکشن نہیں ہو سکتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حمزہ شہباز کو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب برقرار رکھنے پر اعتراض نہیں تو نقطہ صرف الیکشن کے وقت کا رہ گیا، 7 دن کا وقت مناسب نہیں لگتا، اختلافی نوٹ میں دیے گئے وقت میں ایک دن کا اضافہ ہوسکتا ہے، دوبارہ ووٹنگ کے لیے مناسب وقت ہونا چاہیے، وقت 24 گھنٹے ہو، 36 گھنٹے ہو یا 48 گھنٹے ہو۔
پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ہماری 5 مخصوص نشتوں کا نوٹی فیکیشن نہیں ہوا، ہمارے کچھ ارکان حج پر گئے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز شریف کو بلا لیں، یہ کسی کی انا کا مسئلہ نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ہی کیس کی سماعت چار بجے تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں تحریک انصاف کی اپیل پر سماعت کے آغاز پر وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور چوہدری پرویز الہٰٰی روسٹرم پر آ گئے۔
عدالت نے ویڈیو لنک پر پرویز الہٰی سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الٰہی نے یہ کہا ہے کہ حمزہ شہباز وزیر اعلی رہیں، انہیں کوئی اعتراض نہیں ، کیا یہ بات درست ہے؟
چوہدری پرویز الہٰی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دراصل ایسا نہیں ہے، آج بھی اسمبلی میں پولیس تعینات کی گئی ہے، مجھے ان پر بالکل اعتبار نہیں ہے۔
اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں جمہوری روایات برقرار رہیں ،اسی لیے آپ دونوں کو طلب کیا گیا، اپیل کنندہ کی درخواست ہے کہ ری پول کے لیے 26 گھنٹے کا وقت دیا گیا جو کم ہے، آپ کے وکیل نے 7 روز مانگے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے 16 اپریل کو ہونے والے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے منحرف اراکین کے ووٹ شمار کیے بغیر آج یکم جولائی بروز جمعہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کا حکم دیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کے گزشتہ روز کے حکم پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج سہ پہر 4 بجے طلب کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی نے آج وزیر اعلیٰ پنجاب سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ عدالت عالیہ کے فیصلے کےخلاف اپیل منظور کی جائے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کو اجلاس میں شرکت کے لیے مناسب وقت دینا ضروری ہے۔
درخوست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ حمزہ شہباز کو عہدے سے ہٹایا جائے تاکہ صاف و شفاف الیکشن ہوسکیں، جبکہ درخواست پر فیصلے تک وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب روکا جائے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئی کہ وزیراعلیٰ حمزہ شہبازکی کامیابی کا نوٹی فیکیشن معطل کیاجائے، پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلی کا الیکشن فوری معطل کیاجائے۔
تحریک انصاف کی جانب سے اپیل کی گئی کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو تبدیل کرکے اجلاس بلانے کا مناسب وقت دیا جائے۔
تحریک انصاف نے اپیل آج ہی سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا بھی کی تھی، آج ہی اپیل پر سماعت کے لیے متفرق درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کر دی گئی تھی جسے اب منظور لیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ 16 اپریل کو ہونے والے انتخاب میں ڈالے گئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی پی ٹی آئی کے منحرف قانون سازوں کے 25 ووٹوں کو شمار کیے بغیر کی جائے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اگر حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ بننے کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کر سکے تو آرٹیکل 130 (4) کے تحت دوبارہ انتخاب کرایا جائے گا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 130 (4) کے مطابق ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں کسی امیدوار کو 186 ووٹوں کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے صرف موجودہ اراکین اور ان کے ووٹوں میں سے اکثریت کی ضرورت ہوگی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پریزائیڈنگ افسر کی جانب سے 25 ووٹوں کو نکالنے کے بعد حمزہ شہباز مطلوبہ اکثریت سے محروم ہو گئے تو وہ وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے کہا تھا کہ آج جو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا ہے ہم اس کے خلاف کل سپریم کورٹ میں جا رہے ہیں کہ حمزہ شہباز اب کیسے وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے جبکہ عدالت نے کہہ دیا ہے کہ اس کا انتخاب ہی غلط ہوا ہے تو وہ وزیر اعلیٰ کیسے ہوا۔
اس کے علاوہ، پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبے میں جاری سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور فیصلے کی خامیوں پر سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا تھا کہ ‘لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے نے پنجاب میں سیاسی بحران میں مزید اضافہ کر دیا ہے، حمزہ شہباز کی حکومت برقرار نہیں رہی لیکن جو حل دیا گیا ہے اس کے نتیجے میں بحران ختم نہیں ہوگا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس فیصلے میں کئی خامیاں ہیں، قانونی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلے میں خامیوں کو لے کر سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے’۔