’یہ ویڈیو ذرا بند کریں‘ انٹرویو میں توشہ خانہ سے گاڑی لینے کا سوال، مریم نواز کی ویڈیو وائرل

’یہ ویڈیو ذرا بند کریں‘ انٹرویو میں توشہ خانہ سے گاڑی لینے کا سوال، مریم نواز کی ویڈیو وائرل


پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز سے ایک انٹرویو کے دوران توشہ خانہ سے مہنگی گاڑی لینے کا سوال سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہے جس پر صحافی منصور علی خان نے کہا ہے کہ تحقیقات کر رہے ہیں کہ فوٹیج کس نے لیک کی۔

گزشتہ روز سے مسلم لیگ (ن) سے لیے گئے انٹریو کا ایک حصہ سوشل میڈیا پر زیرِ بحث بنا ہوا ہے جس میں اینکر پرسن منصور علی خان مریم نواز سے سوال کرتے ہیں کہ ’آپ نے متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان سے 2009 اور 2010 کے درمیان بی ایم ڈبلیو گاڑی تحفے کے طور پر لی‘۔

اس پر مریم نواز بار بار ویڈیو ریکارڈ نہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اس کو کاٹیں، مجھے بتائیں کہ اس کا فیکٹ کیا ہے، حقیقت میں مجھے اس کا نہیں پتا مگر میں حقائق اور اعداد و شمار ضرور چیک کروں گی‘۔

صحافی جیسے ہی سوال کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ جے آئی ٹی کے ریکارڈ میں شامل ہے تو مریم نواز کہتی ہیں ’اس ویڈیو کو ذرا بند کریں، مجھے اس بارے میں کچھ نہیں پتا، میرے پاس بی ایم ڈبلیو گاڑی نہیں رہی‘۔

بعدازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما فواد چوہدری نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ کاش میں اتنا امیر ہوں کہ میرے پاس بی ایم ڈبلیو ہو اور مجھے پتہ بھی نہ ہو کہ میرے پاس اتنی مہنگی گاڑی بھی ہے لیکن اس کے لیے شریف ہونا اور گونگا ہونا ضروری ہے۔

سوشل میڈیا پر انٹرویو کا حصہ وائرل ہونے کے بعد مریم نواز نے ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ شاید وہ جھوٹ بولنے کے عادی ہیں اور دوسروں سے بھی ایسا کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔

مریم نواز نے کہا کہ ’میرے پاس مطلوبہ معلومات نہیں تھیں اور میں کوئی ایسی بات نہیں کہنا چاہتی تھی جو درست نہ ہو۔‘

بعدازاں انڈپینڈنٹ اردو نے منصور علی خان سے رابطہ کیا اور براہ راست سوالات پوچھے کہ مریم نواز سے کیے گئے اس انٹرویو کا حصہ لیک کیسے ہوا۔

انڈپینڈنٹ اردو کے مطابق ہم نے ان سے سب سے پہلے تو یہ پوچھا کہ انٹرویو کے دوران کیا کوئی کیمرے مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی لگائے گئے تھے؟

اس سوال کے جواب میں منصور نے بتایا ’انٹرویو کے دوران وہاں موجود چھ کے چھ کیمرے ہماری اپنی ٹیم کے تھے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے وہاں کوئی کیمرا موجود نہیں تھا۔‘

جب مریم نواز نے یہ کہا کہ کیمرے بند کریں تو سب کیمرے کیوں بند نہیں کیے گئے؟

اس سوال کے جواب میں منصور نے بتایا کہ ’دراصل میں خود وہاں بیٹھ کر انٹرویو کر رہا تھا، ظاہری بات ہے کہ میں خود اٹھ کر جا کے سب کیمرے فرداً فرداً تو چیک نہیں کر سکتا تھا۔ چونکہ یہ ایک بڑا انٹرویو تھا اس لیے ہم نے چھ کیمرے لگائے تھے۔

’مرکزی کیمروں کے ساتھ ریزرو کیمرے بھی تھے کہ اگر کوئی کیمرا خراب ہو جائے تو ریزرو کیمرا ریکارڈنگ کر لے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایک ہی زاویے سے دو ویڈیوز ریکارڈ ہو رہی تھیں۔ جب یہ فوٹیج آئی تو ہم نے دیکھا کہ جو مین کیمرے تھے وہ تو بند ہو گئے تھے لیکن جو ریزرو کیمرے تھے وہ بند نہیں کیے گئے تھے۔

منصور نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’انٹرویو کے بعد جب میں دفتر واپس پہنچا تب مجھے معلوم ہوا وہ فوٹیج ریکارڈ ہوئی ہے۔ لیکن ہم نے اخلاقاً سوچا کہ چونکہ مریم نواز نے اس حصے کو آن ایئر بھیجنے سے منع کیا تھا اس لیے یہ اخلاقی طور پر غلط ہوتا کہ اگر ہم اسے آن ایئر کرتے بیشک اس میں کتنا ہی مصالحہ ہوتا۔

’میں یہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اس حصے کو مرکزی انٹرویو کا حصہ نہیں بنائیں گے۔‘

انٹرویو کا وہ مخصوص حصہ ایڈیٹنگ کے دوران سسٹم سے ڈیلیٹ کیوں نہیں کیا گیا؟

اس سوال کے جواب میں منصور علی خان نے بتایا: ’میں نے اس وقت اپنے ایڈیٹر کو ہدایت دے دی تھی کہ اس مخصوص حصے کو ڈیلیٹ کر دیا جائے لیکن اب ہم اسی چیز کی تحقیق کر رہے ہیں کہ کیا بعد میں کہیں انہیں لمحات کے درمیان یہ ویڈیو وہاں سے تو نہیں نکلی کہ ڈیلیٹ کرنے کے باوجود کسی نے وہاں سے کاپی کر لی اور بعد میں نکال دی۔

’ہم نے اس کے بعد جو آرکائیوز دیکھیں اور جو پروگرام ایڈٹ کیا اس کے اندر تو انٹرویو کا یہ حصہ نہیں ہے۔ اس کے بعد جب یہ کلپ منظر عام پر آیا تو ہمیں اندازہ ہوا کہ کہیں سے تو اسے نکالا گیا ہے اور یہ انٹرویو کی ایڈیٹنگ کے دوران ہی ہوا ہے۔‘

فوٹیج کس نے لیک کی کیا اس کی تحقیق کی جا رہی ہے؟

اس سوال کے جواب میں منصور نے بتایا کہ ’ہم کل سے تحقیقات کر رہے ہیں، ہم نے اپنی پوری ٹیم کے فرداً فرداً انٹرویو کیے ہیں اس کے علاوہ ہمارے پاس جو سی سی ٹی وی فوٹیج تھی اس کو بھی دیکھا ہے۔

منصور علی خان نے کہا کہ ’جب سے انٹرویو ریکارڈ ہوا تب سے لے کر اب تک۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جس مشین پر کام ہوا اس تک کس کس کو رسائی حاصل تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس ویڈیو کو ریکارڈ ہوئے تقریباً تین ہفتے ہو چکے ہیں۔ یہ انٹرویو 20 مارچ کے آس پاس ریکارڈ ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران اتنا زیادہ وقت گزر چکا ہے کہ اگر یہ پہلے 24 یا 48 گھنٹوں میں کچھ ہونا ہوتا تو ہمارے لیے اس شخص تک پہنچنا ہمارے لیے زیادہ آسان ہو جاتا۔ دوسری بات یہ کہ جس کمپیوٹر پر ایڈٹنگ ہو رہی تھی اس پر انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر ہے اس لیے ہیکنگ کے عنصر کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔

صحافی نے انڈپینڈینٹ اردو کو بتایا کہ ’یا پھر کسی نے انٹرنیٹ، وی ٹرانسفر یا کسی اور فارمیٹ کے ذریعے فوٹیج بھیج دی ہے تو ہم اس کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘

منصور علی خان کا کہنا تھا ہمارا کام اس وقت بہت مشکل ہے لیکن ہم اسے ٹریس کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ساری صورت حال میں وہ خود بھی ایک وکٹم ہیں کیونکہ یہ ان کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے۔ ’بطور ایک صحافی آپ اپنے مہمان جسے آپ انٹرویو کر رہے ہوتے ہیں کے ساتھ ایک اعتماد کا رشتہ قائم کرتے ہیں اور اس ساری صورتحال میں اس اعتماد کی خلاف ورزی بھی ہوئی ہے۔‘

منصور علی خان کی طرف سے اس معاملے پر وی لاگ بھی بنایا جس پر پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل نے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ادھر منصور علی خان نے شہبااز گل کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ پہلی بات وی لاگ دیکھنے کا شکریہ۔

منصور علی خان نے کہا کہ دوسری بات، اسی لیے کہتے ہیں میڈیا بارے پہلے کچھ سیکھ لیں پھر میڈیا ایڈوائیزر بن جائیے گا اور تیسری بات، چھ کیمرے اس لیے لگے تھے تاکہ ریزرو ریکارڈنگ بھی ہو بالکل اسی طرح جب میں نے خان صاحب کا انٹرویو کیا تھا تو اس میں آپ لوگوں نے لگائے تھے، یاد آیا؟


اپنا تبصرہ لکھیں