اعظم، صہیب، آصف،خوشدل اور حسنین کو باہر نکالو، جب سے پاکستانی اسکواڈ کا اعلان ہوا ہے آپ لوگ ایسی ہی باتیں سن رہے ہوں گے۔
ورلڈکپ کے آغاز میں اب 2 ہفتے سے بھی کم وقت باقی ہے مگر ہمیں یہی نہیں پتا کہ کیا منتخب اسکواڈ ہی یو اے ای جائے گا یا اس میں تبدیلیاں ہوں گی، دیگرٹیموں نے کافی پہلے اپنی تیاریوں کو حتمی شکل دے دی تھی مگر ہم ابھی تک تجربات میں مصروف ہیں،ہمیں تاحال نہیں معلوم کہ مڈل آرڈر بیٹنگ میں کسے ہونا چاہیے۔
ریزرو وکٹ کیپر کون ہو؟ فاسٹ بولنگ میں کسے تبدیل کرنا چاہیے،شائقین کی کنفیوژن تو سمجھ میں آتی ہے مگر ہر ماہ بھاری تنخواہ وصول کرنے والے چیف سلیکٹر محمد وسیم کیاکر رہے ہیں؟ اگرچھکا لگانے کی اہلیت ہی ورلڈکپ اسکواڈ میں انتخاب کا پیمانہ ہے تو پہلا نام انور علی کا لکھنا چاہیے تھا،میں نے ہمیشہ شرجیل خان کی قومی ٹیم میں واپسی کو غلط فیصلہ قرار دیا ہے مگر اب جبکہ وہ کئی میچز کھیل چکے تو حکام کو پھر سے یاد آ گیا کہ ماضی میں فکسنگ میں ملوث رہے ہیں، ایسے کھلاڑیوں کی رمیز راجہ نے ہمیشہ مخالفت کی۔ یہ اچھی بات ہے،اب اگر وہ کوئی پالیسی بنا لیں تو مناسب رہے گا لیکن اطلاق صرف موجودہ کرکٹرز پر نہ کریں، مشکوک ماضی کے حامل سابق پلیئرز کو بورڈ اور کوچنگ سے بھی دوررکھیں۔
گوکہ محمد وسیم نے کہا تھا کہ اسکواڈ کے انتخاب میں نئے چیئرمین کی رائے شامل نہیں مگر انھیں نام پہلے بھیج دیے گئے تھے،البتہ اس بات پر یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا، کیا آپ یہ مان سکتے ہیں کہ چند میچز کھیلنے والا چیف سلیکٹر اپنے بل بوتے پر خوشدل شاہ،آصف علی، صہیب مقصود اور اعظم خان کو منتخب کر سکتا ہے؟ چاروں کی انٹرنیشنل کرکٹ میں کوئی خاص کارکردگی نہیں ہے۔ حالیہ نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں بھی جدوجہد کرتے دکھائی دیے، تبدیلوں کے حوالے سے حکام کی جانب سے خاموشی طاری ہے،گذشتہ دنوں سننے میں آیا تھا کہ محمد وسیم نے کھلاڑیوں سے ملاقات میں واضح کردیاکہ ’’آرام سے کھیلو ورلڈکپ اسکواڈ میں تبدیلی نہیں ہوگی‘‘ مگر اصل کہانی کے مطابق انھوں نے کہہ دیا تھا کہ ’’ہم پر ویسے ہی دباؤ ہے پرفارم نہ کیا تو گھر بھیجنا پڑے گا‘‘ روانگی میں چند دن ہی باقی ہیں کئی کھلاڑیوں کو اب تک یہی نہیں پتا کہ دبئی جانے والے جہاز میں ان کی نشست ہو گی یا کسی اور کے نام کا بورڈنگ پاس جاری ہوگا۔
صحیح یا غلط جو بھی سلیکشن ہوئی سلیکٹرز اور بورڈ کو انھیں سپورٹ کرنا چاہیے تھا مگر دباؤ کا شکار کر دیا گیا، جب بھروسہ نہیں تھا تو منتخب کیوں کیا؟ اگر رمیز راجہ نے نہیں کہا تو شاید چیف سلیکٹر نے ان کی پسند ناپسند ذہن میں رکھ کر اسکواڈ تشکیل دیا، جس طرح وسیم اکرم نے اسے سپورٹ کیا اس سے ظاہر ہوگیا کہ ان سے بھی مشاورت ہوئی ہو گی، البتہ بیچارے کپتان بابر اعظم کو لفٹ نہیں کرائی گئی، میدان میں ٹیم کو انہی کو لڑانا ہوگا لہذا پسند کے کھلاڑی دینے چاہیے تھے لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا،آپ خود بتائیں کس اینگل سے اعظم خان وکٹ کیپر لگتے ہیں، فیلڈنگ میں چھپانے میں مسئلہ ہوتا لہذا ریزرو وکٹ کیپر بنا دیا، نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں اعظم کی کارکردگی دیکھ کر شاید سلیکٹرز کو پچھتاوا ہو رہا ہو،وہ اسپنرز کو اچھا کھیلتا ہے۔ چھکے لگاتا ہے، یہی جواز دیا جاتا ہے ناں، اب بھارت سے میچ میں کیا کوہلی سے کہیں گے کہ یار اعظم کی بیٹنگ آ رہی ہے پلیز فاسٹ بولرز کو ہٹا کر اسپنرز کو لے آؤ۔
یہ حقیقت ہے کہ محمد رضوان گذشتہ کچھ عرصے سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، انھوں نے ٹیم میں اپنی جگہ مضبوط کر لی،البتہ سیکنڈ وکٹ کیپر کیلیے تو آنکھ بند کر کے سرفراز احمد کا انتخاب کرنا چاہیے تھا، ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں انھوں نے بہتر بیٹنگ کے ساتھ وکٹوں کے عقب میں بھی عمدگی سے فرائض نبھائے مگر کیا کریں ان کے چچا ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس سینٹر نہیں، اسی طرح خوشدل شاہ،آصف علی اور صہیب مقصود میں سے کسی کی جگہ بھی شعیب ملک آرام سے ٹیم کا حصہ بن سکتے تھے مگر وسیم نے نجانے کیوں ہمیشہ انھیں نظر انداز کیا ہے۔ جب محمد حفیظ 41 سال کی عمر میں بھی اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں تو شعیب ملک تو ان سے تھوڑے چھوٹے ہیں،ان میں کیا کمی ہے؟۔
اسی طرح فخر زمان جیسے کھلاڑی کو کیا سوچ کر سلیکٹ نہیں کیا گیا، پی ایس ایل کا ٹاپ بولر شاہنواز دھانی نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں بھی بہترین پرفارم کر رہا ہے مگر اسکواڈ میں شامل نہیں،اگر سچ پوچھیں تو سرفراز احمد، شعیب ملک، فخرزمان اور شاہنواز دھانی کی جگہ تو بنتی ہے۔ خوشدل، آصف، صہیب، اعظم اور حسنین کسی کو بھی باہر کرنے میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہو گی لیکن اب وقت تیزی سے گزر رہا ہے، اگر اسکواڈ میں تبدیلی نہیں کرنی تو پی سی بی چند سطور کی پریس ریلیز جاری کر کے قیاس آرائیوں کا خاتمہ کر دے، اگر کرنی ہیں تو بتا دیا جائے لیکن اس صورت میں چیف سلیکٹر محمد وسیم عہدے پر رہنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھیں گے، راشد لطیف نے بھی یہی بات کہی ہے۔
ویسے بھی رمیز راجہ ماضی کی طرح چار رکنی سلیکشن کمیٹی کی تشکیل کا عندیہ دے چکے، کوچز کو سلیکٹر بنانے کی کوئی منطق ہی نہیں تھی۔ ظاہر ہے سب کو پہلے اپنی ٹیموں کے کھلاڑیوں کی فکر ہوتی، کیا کوئی دوسری ٹیم کے پلیئر کا نام دیتا؟ لگتا یہی ہے کہ وسیم کیلیے ڈاکٹر نعمان نیاز کو دوبارہ سے پی ٹی وی اسپورٹس میں کوئی جگہ نکالنا ہوگی، رہی بات ٹیم کی تو یہ ہمارے ملک پاکستان کی ٹیم ہے، ہم سب کو اسے سپورٹ کرنا ہے، اگر یہی پلیئرز ورلڈکپ کھیلنے کیلیے یو اے ای گئے تب بھی ہم ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں گے،البتہ سب سے پہلے خود سلیکٹرزاور بورڈ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا یہ ان کی بھی ٹیم ہے یا تبدیلیاں کرنی چاہئیں۔