وزارت خزانہ نے سینیٹ اجلاس میں کورونا وائرس کے بحران کے باعث ملک میں 30 لاکھ افراد کے بیروزگار ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔
خیال رہے کہ آج(5 جون کو) چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ایوان بالا کا بجٹ اجلاس منعقد ہوا۔
بجٹ اجلاس سے متعلق سینیٹ کا اجلاس ہوا جس میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز) ایس او پیز پر سخت عملدرآمد کو یقینی بنایا گیا۔
اجلاس میں مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کی جانب سے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق بل پیش کیا گیا جو چئیرمین سینیٹ نے بل متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ کمیٹی 8 جون تک سفارشات مکمل کر کے 10 روز میں یش کرے۔
اس کے ساتھ ہی اجلاس میں ڈاکٹر بابر اعوان کی جانب سے عام انتخابات 2018 کی جائزہ رپورٹ بھی پیش کی گئی۔
علاوہ ازیں اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کی شدید مذمت کی گئی اور سینیٹر راجا ظفرالحق کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف قرارداد منظور کرلی گئی۔
سینیٹ اجلاس کے دوران وزارت خزانہ کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کورونا وائرس کے سنگین معاشی اثرات کی تصویر پیش کی گئی۔
وزارت خزانہ کے مطابق کورونا بحران کے باعث ملک میں 30 لاکھ افراد بیروزگار ہوسکتے ہیں جن میں سے صنعتی شعبے کے 10 لاکھ اور خدمات کے شعبے کے 20 لاکھ افراد ملازمت سے محروم ہوسکتے ہیں۔
جواب میں تخمینہ لگایا گیا کہ کورونا بحران کے باعث غربت کی شرح 24.3 فیصد سے بڑھ کر 33.5 فیصد ہو جائے گی جبکہ مالی خسارہ 7.5 فیصد سے بڑھ کر 9.4 فیصد ہو جائے گا۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کے مطابق بیرون ملک کام کرنے والے مزدوروں کی ترسیلات زر میں 2 ارب ڈالرز کی کمی ہو گی جو کورونا بحران سے قبل 23 ارب ڈالرز سے کم ہو کر 20 سے 21 ارب ڈالرز ہوجائیں گے۔
جواب کے مطابق کورونا بحران کے باعث فروری سے مارچ کے دوران روپے کی قدر میں ماہانہ بنیاد پر 7.5 فیصد کمی آئی ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق کورونا بحران سے قبل جی ڈی پی گروتھ کا تخمینہ 3.24 فیصد تھا جبکہ مالی سال 2020 میں 0.4 فیصد کی منفی شرح نمو رہی۔
تحریری جواب کے مطابق اپریل سے جون تک فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) ریونیو میں 700 سے 900 ارب روپے تک کمی ہوگی جبکہ ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 4800 ارب روپے تھا جو 3905 ارب روپے تک گر سکتا ہے۔
علاوہ ازیں وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کی برآمدات کم ہو کر 21 سے 22 ارب ڈالرز ہوجائیں گی جبکہ کورونا بحران کے باعث بجٹ خسارہ 9.4 فیصد تک بڑھ جائے گا۔
اجلاس کے دوران سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ 19 ہزار ایکڑ پر قائم اسٹیل ملز سے اس سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں، انہوں نے کہا کہ 4 روز پہلے خبر آئی کہ حکومت نے 9 ہزار ملازمین کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا تو 9 ہزار ملازمین فارغ کرنے کی کیا وجہ بنتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اسٹیل ملز کے ریٹائر ملازمین کو بقایا جات کیوں نہیں دیتی تجویز ہے کہ اسٹیل ملز ایک بہت بڑا ادارہ ہے جو تباہی اور بربادی سے دوچار ہے اس لیے اس حوالے سے خصوصی کمیٹی قائم کی جائے ۔
سراج الحق نے کہا کہ حکومت اس ادارے کا جو قرضہ دیتی ہے اس پر سود بھی لیتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت اس ادارے کو چلانا اور آگے بڑھانا نہیں چاہتی ، یہی وجہ ہے کہ ملازمین بھی پریشان ہیں، ریٹائرڈ افراد بھی پریشان ہیں اور مزید افراد کو نکالا جارہا ہے اور اب تک اس کی بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
بعدازاں چیئرمین سینیٹ نے ایوان بالا کا اجلاس 8 جون بروز پیر کی سہ پہر 4 بجے تک ملتوی کردیا۔
سینیٹ سیکریٹریٹ سے جاری آرڈر کے مطابق ایوان بالا کا اجلاس صبح کے وقت طلب کیا گیا۔
علاوہ ازیں گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ڈاکٹر شہزاد وسیم کو سینیٹ میں نیا قائد ایوان نامزد کیا تھا جس کا نوٹی فکیشن آج جاری کردیا گیا۔
خیال رہے کہ سینیٹر شبلی فراز نے گزشتہ ماہ وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات کو منصب سنبھالا تھا لہذا ان کی جگہ ڈاکٹر شہزاد وسیم کو قائد ایوان بنایا گیا ہے۔