کروڑوں ڈالرز کی ’اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی’: ایف آئی اے 100 افراد سے تحقیقات کرے گی

کروڑوں ڈالرز کی ’اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی’: ایف آئی اے 100 افراد سے تحقیقات کرے گی


امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی وجوہات تلاش کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے لاہور کی مختلف ایکسچینج کمپنیوں سے مبینہ طور پر 6 کروڑ 30 لاکھ سے زائد ڈالر خریدنے والے تقریباً 100 افراد کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ادارے کا ماننا ہے کہ ان ڈالرز کی گزشتہ 45 روز کے دوران یا تو ذخیرہ اندوزی کی گئی یا افغانستان اسمگل کیے گئے تھے۔

ایف آئی اے کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ایف آئی اے لاہور کی جانب سے منگل کو 100 افراد کو نوٹسز دیے گئے ہیں اور انہیں 15 اکتوبر کو پیش ہونے کے لیے کہا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ افراد مبینہ طور پر امریکی ڈالر خریدنے میں ملوث ہیں اور انہوں نے قانون و ضوابط سے بچنے کے لیے منظم انداز میں ہر ٹرانزیکشن 35 ہزار یا 50 ہزار ڈالر کم کی ہے جو ڈالر کی ذخیرہ اندوزی، منی لانڈرنگ اور اسملنگ کا باعث بن سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان افراد سے خاص طور پر 45 روز کے دوران بڑی تعداد میں غیر ملکی کرنسی خریدنے کا مقصد دریافت کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ‘شبہ ہے کہ انہوں نے امریکی ڈالر ذخیرہ اندوزی یا افغانستان میں اسمگل کرنے کے لیے خریدے ہیں’۔

ایف آئی اے لاہور کے ڈائریکٹر محمد رضوان کی قیادت میں ٹیموں نے ان رپورٹس کے بعد شہر بھر کی کرنسی ایکسچینج کمپنیوں کے ہیڈکوارٹرز سے ڈیٹا جمع کیا کہ ڈالر، بڑی تعداد میں ذخیرہ یا افغانستان اسمگل کیا گیا ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی کارروائی کی وجہ سے ڈالر کی بڑھتی قدر رکی ہے، تفتیش کے بعد ڈالر کی منی لانڈرنگ اور ذخیرہ اندوزہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کی جانب سے ایکسچنج کمپنیوں کا جنوری سے ستمبر 2021 تک کا ڈیٹا جمع کیا گیا جس سے بڑی تعداد میں ڈالر خریدنے والے افراد کی کھوج لگانے میں مدد ملی۔

ایف آئی اے عہدیدار کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق اگر کوئی شخص (کسی ایکسچنج کمپنی) 35 ہزار ڈالر خریدتا ہے تو اس ٹرانزیکشن سے متعلق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو آگاہ کرنا ہوگا اور یہ ٹرانزیکشن چیک کے ذریعے کی جائے گی۔

اگر کوئی شخص 50 ہزار ڈالر خریدنا چاہتا ہے تو اسے ایس بی پی سے اجازت لینے کی ضرورت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ خریدار، اسٹیٹ بینک کو مطلع کرنے سے بچنے کے لیے ایکسچینج کمپنیوں کے تعاون سے پانچ یا چھ ٹرانسیکشن میں ایک لاکھ سے زائد ڈالر بھی خریدتے ہیں کیونکہ مرکزی بینک، اس طرح کی ٹرانزیکشنز ایف آئی اے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حوالے کرتا ہے۔

ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ چند ایکسچینج کمپنیاں اس ‘منظم ٹرانزیکشنز’ میں ملوث ہیں۔

100 افراد کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘انہیں نظام میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 6 کروڑ 30 لاکھ ڈالر فروخت کیے گئے ہیں’۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کی خریدار پر ایک اور پابندی عائد کی گئی ہے جو بائیومیٹرک تصدیق ہے، یہ ان سب کے لیے لازم ہے جو اوپن مارکیٹ سے 500 یا اس سے زیادہ ڈالر خرید رہے ہیں۔

اس سے قبل ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے میڈیا کے ذریعے نشاندہی کی گئی تھی کہ افغانستان میں ڈالر کا اخراج بہت بڑھ گیا ہے جبکہ فچ ریٹنگز کمپنی نے حال ہی میں اس مسئلے کو شرح تبادلہ میں عدم استحکام کی ایک وجہ قرار دیا تھا۔


اپنا تبصرہ لکھیں