بیمار جانوروں کو علیحدہ کرنے کے لیے شہر کے داخلی مقامات پر کسی بھی مؤثر طریقے کار کی عدم موجودگی کے سبب لپمی اسکین کی بیماری (ایل ایس ڈی) سے متاثرہ مویشیوں کو عیدالاضحیٰ سے قبل کراچی کی مویشی منڈیوں میں لائے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ مقامی حکومت کے مقرر کردہ ٹھیکیدار مویشیوں کے تاجروں سے ’اینیمل ہیلتھ کلیئرنس فیس‘ کے نام پر پیسے بٹور رہے ہیں اور انہیں اپنے جانوروں کو شہر کی منڈیوں میں لے جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹھیکیداروں نے فیس وصولی کے لیے 3 چوکیاں قائم کر رکھی ہیں، ان میں سے ایک قومی شاہراہ پر سسی ٹول پلازہ کے قریب، دوسری ایم-9 پر ایک سیمنٹ فیکٹری کے سامنے اور دوسری شمالی بائی پاس پر مواچھ گوٹھ کے علاقے میں جانوروں کی منڈی کے ساتھ موجود ہے۔
مویشیوں کے ایک تاجر نے بتایا کہ ’ان چوکیوں پر کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہے اور اس کا واحد مقصد سال بھر تاجروں سے پیسے بٹورنا ہے، اس بار ہم ہیلتھ کلیئرنس فیس کے نام پر ہر بڑے جانور کے لیے 400 روپے ادا کر رہے ہیں جس میں ویٹرنری سروس شامل ہی نہیں ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ تاجر کئی برسوں سے بھتہ خوری کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
ذرائع نے بتایا کہ لمپی اسکن کی بیماری سے متاثرہ بیشتر جانور پنجاب سے لائے جارہے ہیں جہاں اس بیماری کے کیسز زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر سال کنٹونمنٹ بورڈ ملیر کے زیر انتظام لگائی جانے والی منڈی میں لمپی اسکن کی بیماری کے 9 کیسز کی شناخت اور باضابطہ طور پر تصدیق کی جا چکی ہے۔
منڈی کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ’27 مئی سے مارکیٹ میں تعینات ایک سرکاری ویٹرنری ٹیم کی جانب سے جانچ کے دوران 9 گائیں لمپی اسکین کی بیماری سے متاثرہ پائی گئیں، کوئی جانور منڈی میں نہیں اتارا گیا اور پوری کھیپ واپس بھیج دی گئیں، تاجروں سے ویکسینیشن سرٹیفکیٹ پیش کرنے کو بھی کہا جا رہا ہے‘۔
رابطہ کرنے پر صوبائی ڈائریکٹر جنرل محکمہ لائیوسٹاک ڈاکٹر نذیر کلہوڑو نے کہا کہ یہ کے ایم سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہر میں مویشی منڈیوں کی نگرانی کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی بیمار جانور منڈیوں میں داخل نہ ہو کیونکہ وہ تاجروں سے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ لوکل گورنمنٹ کا عملہ بغیر کسی خدمات کے تاجروں سے پیسے وصول کر رہا ہے لیکن ہمیں ابھی تک تحریری طور پر کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ محکمہ لائیوسٹاک نے عیدالاضحیٰ کے پیش نظر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لیے 2 ہفتے قبل کے ایم سی کو خط بھیجا تھا۔
ڈاکٹر نذیر کلہوڑو نے کہا کہ وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت جانوروں کے مالک/تاجر کی جانب سے لمپی اسکن کی بیماری یا گوٹ پاکس ویکسینیشن سرٹیفکیٹ دکھائے جانے کے بغیر کسی جانور کو منڈیوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم گھوٹکی، کشمور اور حب میں 3 صوبائی سرحدی مقامات پر ان ہدایات پر عمل درآمد کر رہے ہیں اور اگر مقامی حکومت نے صورتحال پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تو ہم چوکیوں کی تعداد میں اضافہ کر سکتے ہیں‘۔
ڈاکٹر نذیر کلہوڑو نے بتایا کہ محکمہ لائیو اسٹاک میں عملے کی کمی ہے اور اس کی افرادی قوت بھی لمپی اسکن کی بیماری کی ویکسینیشن میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے فعال ردعمل کی وجہ سے صوبے میں لمپی اسکن کی بیماری کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، ہم اب تک 22 لاکھ مویشیوں کو ٹیکا لگا چکے ہیں اور رواں ماہ کے آخر تک یہ تعداد 40 لاکھ مویشیوں تک لے جانے کا ہدف ہے‘۔
انہوں نے عام لوگوں پر زور دیا کہ وہ لمپی اسکین کی بیماری سے نہ گھبرائیں کیونکہ مویشیوں کی بیماری سے انسانی صحت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جانوروں کی ایک بڑی تعداد بحفاظت صحت یاب ہوئی لیکن ان کی کھالوں پر ابھی تک نشانات ہیں، لوگوں کو ایسے جانوروں کو مسترد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان میں بیماری کے خلاف زندگی بھر کی قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے جبکہ ویکسینیشن لمپی اسکن کی بیماری کے خلاف محض ایک سے 2 سال تک مدافعت فراہم کرتی ہے۔
کے ایم سی کے عہدیدار اقبال نواز نے کہا کہ ’کارپوریشن نے مویشی منڈیوں کی نگرانی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، یہ ہمارا کام نہیں ہے، ہم صرف ذبح کیے جانے والے جانوروں کی جانچ کے ذمہ دار ہیں جبکہ جانوروں کی فیس متعلقہ ضلع میونسپل کارپوریشن وصول کر رہی ہے‘۔