کراچی میں انسداد پولیو مہم کے دوران 85 انتہائی خطرناک یونین کمیٹیوں میں 40 میں سے 27 فیصد والدین پولیو کے حوالے سے انکار کیا ہے، انسداد پولیو مہم 16 اگست سے شروع ہوئی، جو کہ 25 اگست تک جاری رہے گی۔
ایمرجنسی آپریشن سینٹر (ای او سی) کی جانب سے پولیو کے حوالے سے صحافیوں کے لیے سیشن منعقد کیا تھا، جہاں اس بات کی جانب توجہ دلائی گئی تھی کہ افغانستان سے یہاں آنے والے لوگوں کے خطرے سے زیادہ اندرونی چیلنجز کئی زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں انسداد پولیو جدوجہد ایک المیہ بن چکی ہے۔
ایمرجنسی آپریشن سینٹر (ای او سی) کے کوآرڈینیٹر ارشاد سدھار کا کہنا تھا کہ وائرس کی ماحول میں موجودگی کی کئی وجوہات ہیں، حالیہ انسداد پولیو مہم کے پہلے ہی دن 27 فیصد نے انکار کیا، جہاں 40 یونین کمیٹیوں میں 62 فیصد کامیابی ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ 48 فیصد بچوں میں سے 18 فیصد گھروں پر موجود نہیں تھے۔
جبکہ پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کی بڑی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ والدین کے درمیان ویکسینیشن کے نئے طریقے کار سے متعلق آگاہی نہیں ہے، جبکہ آپریشنل چیلنجز کا بھی سامنا ہے، تاہم ارشاد سدھار کی جانب سے امید ظاہر کی جا رہی ہے، 85 انتہائی خطرناک یونین کمیٹیوں میں 15 سے 25 اگست کے دوران بہتر نتائج متوقع ہیں۔
ماہرین کے مطابق کراچی میں جاری پولیو مہم پہلی مہم ہے، جو کہ بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہے، جس میں نیڈل فری جیٹ انجیکٹرز کا استعمال کیا جا رہا ہے، اس سے قبل یہ طریقہ کار کراچی میں بڑے پیمانے پر 2019 میں استعمال کیا گیا تھا۔
کوآرڈینیٹر ارشاد سدھار نے بتایا کہ فریکشنل ڈوسز آف ان ایکٹیویٹڈ پولیو وائرس ویکسین (ایف آئی پی وی) سنگل ڈوس ہے، جو کہ پولیو کے پھیلنے کے حوالے سے استعمال کیا جا چکا ہے اور کئی ممالک ایف آئی پی وی کے دو ڈوسز اپنے امیونیزیشن پروگرامز میں استعمال کر رہی ہیں۔
پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر خالد شفعی نے بتایا کہ ایک ایف آئی پی وی کا سنگل ڈوس زیادہ پُر اثر ہوتا ہے، جبکہ دو ڈوسز میں اس سے بھی زیادہ اثر دیکھایا گیا ہے، اگر ایف آئی پی وی پولیو کے قطروں کے ساتھ پلایا جائے تو اس سے آنتوں کی قوت مدافعت کو بہتر بنانے اور سماج میں وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر خالد شفعی اور آغا خان یونی ورسٹی کے سینئر پیڈیاٹریشن ڈاکٹر علی فیصل سلیم کی جانب سے ملک میں پولیو کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جہاں رواں سال 14 مصدقہ کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ ماحول میں متعدد مثبت سیمپلز بھی سامنے آئے ہیں۔