لاہور: اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے مینار پاکستان میں جلسے کے لیے پنڈال سجا لیا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن، مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر رہنما جلسہ گاہ میں موجود ہیں۔
مینار پاکستان میں مختلف جماعتوں کے کارکنان کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جو اپنی جماعتوں کے پرچم تھامے ہوئے نعرے لگا رہے ہیں۔
جلسہ گاہ پہننچے سے قبل پی ڈی ایم کے صدر اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے صدر سردار اختر مینگل اور عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق کے گھر پہنچے جہاں انہیں ظہرانہ دیا گیا۔
اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ریلی کی قیادت کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق کے گھر پہنچے، جس کے بعد وہاں مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں اہم اجلاس ہوا۔
پی ڈی ایم رہنماؤں کے اجلاس میں آئندہ کے لائحہ سے متعلق مشاورت کی گئی، جس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنما سردار ایاز صادق کی رہائش گاہ سے جلسہ گاہ روانہ ہوئے۔
عدم تشدد کی بات کرنے والوں کو غدار قرار دیا گیا، امیر حیدر ہوتی
اے این پی کے رہنما امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ لاہور آپ کا شکریہ ہم پختون وفاداری کی قدر کرتے ہیں اور ہمیں آپ لوگوں کی وفاداری کی قدر ہے اورلاہور نے آج ثابت کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کا ایک اقامے کی بنیاد پر ارشد ملک جیسے جج کے ذریعے نااہل کیا گیا، ان کی بیٹی کو ان کے سامنے گرفتار کیا گیا تاکہ وہ ان کی کمزوری بنے لیکن وہ ان کی طاقت بن گئی۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کی خدمت کرنے والے اور ملک کے سب سے محنتی وزیراعلیٰ شہباز شریف کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور ان کے بیٹے کو بھی قید کرکے پنجاب ایک ایسے آدمی کے حوالے کردیا گیا جو یونین کونسلر منتخب نہیں ہوسکتا۔
امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ سو سال قبل باچاخان نے عدم تشدد کی بات کی لیکن ان پر تشدد ہوا اور انہیں غدار قرار دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج جو ظلم اور ناانصافی ہورہی ہے، اس سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ جو بات باچاخان نے آج سے کئی 80، 90 سال پہلے کہی تھی وہ سچ ثابت ہو رہی ہے۔
خیال رہے کہ آج کا جلسہ اپوزیشن کی حکومت مخالف شروع کی گئی تحریک کے پہلے مرحلے کا آخری جلسہ ہے جس کے بعد یہ اپوزیشن اتحاد دوسری حکمت عملی اپنانے کا ارادہ رکھتا ہے، جلسے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی جدوجہد کے ’فیصلہ کن مرحلے‘ کا اعلان بھی متوقع ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے حکومت مخالف جلسوں کا باقاعدہ آغاز 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ جلسے سے ہوا تھا جس کے بعد یہ اتحاد کراچی، کوئٹہ، پشاور اور ملتان میں جلسے کرچکا ہے۔
اس تمام صورتحال کے حوالے سے ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جلسے کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رضاکار ونگ انصار الاسلام کے 3 ہزار رضاکار سیکیورٹی کے فرائض انجام رہے ہیں جبکہ خواتین شرکا کے لیے الگ سے گیٹ مختص کیا گیا ہے۔
اپوزیشن اتحاد نے آج کے اس جلسے کے لیے سیاسی ماحول کو کافی گرم کیا ہوا ہے اور اس سلسلے میں پی ڈی ایم میں شریک جماعتوں کے قیادت نے مختلف ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
وہی دوسری جانب اگرچہ حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم کے جلسے کے راستے میں رکاوٹیں نہ کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم حکومت نے جلسے کے لیے کرسیاں، میز، ٹینٹ وغیرہ فراہم کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔
حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر پی ڈی ایم کو جلسے مؤخر کرنے کا کہا گیا تھا تاہم اب بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے آخری لمحات میں اتوار کے جلسے کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور وہ جلسے میں آنے والے شرکا کو روکنے کا ارادہ نہیں رکھتی اور اپوزیشن کو یہ موقع دینا چاہتی ہے وہ اکتوبر 2011 میں اسی مقام پر کیے گئے عمران خان کے جلسے سے مقابلہ کرے۔
تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم کو جلسے کے لیے فری ہینڈ دینے پر شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ ان کی جدوجہد کا اگلا مرحلہ جنوری میں شروع ہوگا جس میں پی ڈی ایم آخری شو سے قبل ملک بھر میں 16 مزید ریلیوں کا منصوبہ رکھتی ہے۔
آخری شو میں پی ڈی ایم جماعتوں کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفے شامل ہیں۔
لیگی رہنما کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ توقع کر رہے ہیں کہ جنوری میں پی ڈی ایم لانگ مارچ سے قبل کچھ ’پردے کے پیچھے‘ پیش رفت ہوسکتی ہے۔
مریم اور بلاول کا مینار پاکستان پر پہلا جلسہ
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) مینار پاکستان پر ایک جلسہ کرنے جارہی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا یہ اس مقام پر پہلا جلسہ ہے۔
اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی بھی مینار پاکستان میں سیاسی جلسے میں یہ پہلی شرکت ہوگی۔
اس مقام پر جاکر جلسے سے ان کی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو کے 1986 کے منار پاکستان کے تاریخی جلسے کی یادیں تازہ ہونے کی اُمید ہے۔
جلسے کے لیے سیاسی گہما گہمی
آج کے جلسے میں کارکنان کی شرکت یقینی بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) نے لاہور میں سیاسی حل چل دکھائی اور مریم نواز نے 14 حلقوں میں کارنر میٹنگ بھی کیں۔
انہوں نے لوگوں سے خطاب میں کہا کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نکلیں اور پی ڈی ایم کے منار پاکستان جلسے میں شریک ہوں تاکہ اس حکومت کو گھر بھیجا جاسکے۔
جلسے سے قبل ہفتے کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے ڈان سے گفتگو میں منار پاکستان پر جلسے کی اہمیت پر زور دیا۔
دہشت گردی کا خطرہ
ادھر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ’دہشت گردی کے خطرے کے الرٹ‘ اور کورونا وائرس کی صورتحال کے پیش نظر پی ڈی ایم کو منار پاکستان کا جلسہ ملتوی کرنے کا کہا تھا۔
اس کے علاوہ صوبائی وزیر قانون راجا بشارت نے بھی بتایا تھا کہ اپوزیشن اتحاد کی قیادت کو قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کی جانب سے جاری کیے گئے خطرے کے الرٹ سے متعلق آگاہ کردیا تھا۔
اسی طرح لاہور پولیس کی جانب سے بھی بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف کو بھی دہشت گردی کے خطرے سے متعلق الرٹ جاری کیا تھا۔
یاد رہے کہ نیکٹا کی جانب سے 13 دسمبر کو لاہور میں ممکنہ دہشت گردی کا الرٹ جاری کیا گیا ہے، اس حوالے سے 2 الگ الگ نوٹیفکیشنز بھی جاری کیے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: 31 دسمبر سے پہلے سارے استعفے میری جیب میں ہوں گے، بلاول بھٹو
ان نوٹیفکیشنز میں کہا گیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور حزب اسلامی افغانستان (ایچ آئی اے) کی جانب سے پی ڈی ایم کے لاہور جلسے کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
ایک نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ ‘اطلاعات کے مطابق ٹی ٹی پی کے دہشت گرد 13 دسمبر کو دہشت گرد کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، اگرچہ اس حوالے سے تفصیلات دستیاب نہیں کہ حملہ کہاں کیا جاسکتا ہے اور نشانہ کون ہوگا، لیکن یہ اس تاریخ کے انتخاب کی بڑی وجہ مینار پاکستان پر عوام کا بڑے اجتماع ہوسکتی ہے’۔
دوسرے نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ ‘9 دسمبر کو مغربی سرحد کے اس پار ایچ آئی اے کے کارندوں کا اجلاس ہوا جس میں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا’۔
پی ڈی ایم کیا ہے؟
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، 20 ستمبر کو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد تشکیل پانے والا 11 سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو اپنے ’ایکشن پلان‘ کے تحت 3 مرحلے پر حکومت مخالف تحریک چلانے کے ذریعے حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔
ایکشن پلان کے تحت پی ڈی ایم نے رواں ماہ سے ملک گیر عوامی جلسوں، احتجاجی مظاہروں، دسمبر میں ریلیوں اور جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف ایک ’فیصلہ کن لانگ مارچ‘ کرنا ہے۔
مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے پہلے صدر ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف سینئر نائب صدر ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اس کے سیکریٹری جنرل ہیں۔
اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے اس اتحاد میں بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں، تاہم جماعت اسلامی اس اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔