پیکا آرڈیننس: عدالت نے حکومت کو دلائل کیلئے آخری مہلت دے دی

پیکا آرڈیننس: عدالت نے حکومت کو دلائل کیلئے آخری مہلت دے دی


اسلام آباد ہائی کورٹ نے پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) آرڈیننس کے خلاف درخواستوں میں دلائل کے لیے حکومت کو آخری مہلت دے دی۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، آل پاکستان نیوز پیپلز سوسائٹی سمیت دیگر درخواستوں کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔

دوران سماعت پی ایف یو جے کے وکیل عادل عزیز قاضی، وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ کے علاوہ دیگر عدالت پیش ہوئے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایاکہ اٹارنی جنرل سپریم کورٹ آف پاکستان میں مصروف ہیں جس کے سبب وہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ پیکا آرڈیننس بادی النظر میں آئین سے متصادم ہے، ایف آئی اے نے مسلسل اختیارات کا غلط استعمال کیا، اختیارات کا غلط استعمال تنقید اور مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے کیاگیا۔

انہوں نے کہاکہ دلائل دیں عدالت سن کر فیصلہ کرے گی، یہاں تین سوالات ہیں، آرڈیننس بظاہر آئین کے آرٹیکل 89 کی خلاف ورزی میں جاری ہوا، پیکا سیکشن 20کا غلط استعمال ہو رہا ہے، سیاسی مباحثوں کو ختم کرنے کے لیے یہ اختیار مسلسل غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ تہمت لگانے کے لیے قانون پہلے سے موجود ہے، بتائیں وہ کون سا ہے؟

انہوں نے کہا کہ پاکستان پینل کوڈ میں تہمت لگانے کے جرم کی سزا موجود ہے اس کی سزا پانچ سال ہے، کسی جمہوریت میں سیلف سنسر شپ کیسے ہوسکتی ہے، عدالت کی معاونت کریں کہ پیکا آرڈیننس کے سیکشن 20 کو کیوں کالعدم قرار نہیں دیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس سے متعلق پی پی سی کی سیکشن 496 سی موجود ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ اس جرم کی سزا پانچ سال ہے جس کا اطلاق سوشل میڈیا پر تہمت لگانے والے پر بھی ہو گا، پبلک آفس ہولڈر کے لیے تو معیارات مختلف ہیں، وہ تو خود کو پبلک سروس کے لیے پیش کرتا ہے، ایف آئی اے نے جو رپورٹس پیش کیں وہ تو انٹرنیٹ پر صحافیوں کی سرویلنس کر رہے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہاکہ ملک میں جمہوریت اور آئین ہے، پبلک آفس ہولڈر سوشل میڈیا سے پریشان کیوں ہیں؟آپ کو بین الاقوامی معیارات بھی دیکھنے ہیں، ہم اکیسویں صدی میں ہیں، ملک کو پیچھے تو نہیں لے کر جانا، ترمیمی آرڈیننس پر عملدرآمد رکا ہوا ہے، یہی تو پوچھ رہے ہیں کہ آرڈیننس لانے میں جلدی کیا تھی؟

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 89 کے تحت صدر کا آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار پڑھیں، منیر اے ملک نے نہایت اہم نکتہ اٹھایا ہے، جس دن آرڈیننس جاری ہوا اس دن قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ ترمیمی آرڈیننس کے تحت سیکشن 20 سے ’نیچرل‘ کا لفظ نکالا گیا، اس میں انسٹی ٹیوٹس کو شامل کا گیا، جیسا کہ ججز خود شکایت درج نہیں کرا سکتے، اس ترمیم کے ذریعے رجسٹرار بھی شکایت درج کروانے کا اہل نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ججز خوفزدہ نہیں، ججز کی ساکھ ان کے ضابطہ اخلاق اور فیصلوں سے بنتی ہے، ادارے پر عوام کا اعتماد ضروری ہے، ہر ادارہ عوام کو جوابدہ ہے،حکومت کو چاہیے کہ وہ عدلیہ کے بارے میں پریشان نہ ہو۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ مثبت تنقید پر کوئی اعتراض نہیں ہے جس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ کون طے کرے گا کہ تنقید مثبت ہے یا منفی؟ اگر کوئی ادارہ ہتک عزت کا مقدمہ دائر نہیں کر سکتا تو وہ یہاں کیسے شکایت درج کرا سکتا ہے،آرڈیننس میں اداروں کی توہین سے روکنے کی بات کی گئی،اداروں کی توہین کیسے ہو سکتی ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ معاشرے میں کچھ اداروں کی ساکھ کی حفاظت کرنا ہوتی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ مثلاً کس ادارے کی حفاظت کرنا ہوتی ہے، جس پر انہوں نے کہا کہ معزز جج صاحبان سمیت سب کی ساکھ بچانا ضروری ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ عدلیہ کے لیے ہی یہ کر رہے ہیں تو جان لیں عدلیہ کو تنقید سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔

دوران سماعت منیر اے ملک نے کہا کہ جعلی نیوز کا حل زیادہ سے زیادہ سچ بولنا ہے،جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس کارلینوس کی ساکھ کو تو آج تک کسی نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس زمانے میں تو سوشل میڈیا بھی نہیں تھا، موجودہ حالات میں اس کی ضرورت محسوس ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہاکہ پاکستان سول رائٹس کے عالمی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے، آپ ان کے خلاف جا رہے ہیں سوشل میڈیا کا غلط استعمال تو سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہتک عزت کے قوانین تو پہلے سے بھی موجود تھے،آپ نے ایف آئی اے کو اختیار دے دیا کہ اس پر گرفتار کر لیں، ہتک عزت کے قوانین میں تو سزا بھی عموماً گرفتاری کی نہیں ہوتی،آپ نے ایف آئی اے کو ہتک عزت کے کیس میں براہ راست گرفتاری کا اختیار دے دیا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 89کے حوالے سے دلائل کے لیے مہلت چاہیے، اس معاملے پر عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ حقائق دیکھنے پڑیں گے، صرف صدر مملکت کا ٹوئٹ کافی نہیں کہ اجلاس بلایا گیا تھا، یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ایجنڈا پر کیا چیزیں تھیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کو آخری موقع دے رہے ہیں، پیر کو دلائل دیں، بتائیں کہ ہتک عزت کو فوجداری کیوں بنایا جائے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ مجھے دو تین روز دیے جائیں تاکہ کچھ معلومات اور ہدایات لے سکوں۔

دوران سماعت عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ نے عدالت ایک اور جرنلسٹ کو بذریعہ واٹس ایپ نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ اُس جرنلسٹ نے کیا کیا ہے؟ جس پر وکیل نے کہاکہ نوٹس میں اس متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔

عدالت نے حکم دیا کہ یہ بات تو طے ہو چکی ہے کہ نوٹس میں وجوہات تحریر کر کے اس کی باضابطہ تعمیل کرائی جائے گی۔

وکیل نے کہاکہ ہم نے اس نوٹس کو چیلنج کر دیا ہے، ابھی اس کی تاریخ سماعت مقرر نہیں ہوئی۔

عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت30 مارچ تک کیلئے ملتوی کردی۔


اپنا تبصرہ لکھیں