پشاور ہائیکورٹ کا حکومت کو افغان مہاجرین کی سرگرمیاں محدود کرنے کا حکم


پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ ملک میں قوانین کے تحت افغان مہاجرین کی نقل و حرکت محدود کی جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس لال جان خٹک اور جسٹس نعیم انور پر مشتمل بینچ نے سینئر وکیل محمد معظم بٹ کی جانب سے دائر درخواست نمٹادی۔

مذکورہ پٹیشن میں درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومتوں کو افغان مہاجرین کی زندگی کو قانون کے تحت کرنے اور غیر قانونی مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا حکم دیا جائے۔

2 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کرتے ہوئے بینچ نے حکم دیا کہ کوئی بھی درخواست گزار کی اس بات سے اختلاف نہیں کرے گا کہ مہاجرین کی سرگرمیاں قانون کے مطابق ہونی چاہیئیں اور کسی بھی صورت انہی اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ جو چاہیں کریں کیوں کہ انہیں ایک منظم اور قانون کے مطابق زندگی گزارنی پڑتی ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ مہاجرین کو متعلقہ حکام سے اجازت لیے بغیر کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ عدالتی دائرہ اختیار کے تحت نہیں کیا جاسکتا لہٰذا درخواست گزار کا کیس متعلقہ حکام کو بھیجنا مناسب ہے تا کہ مہاجرین کی زندگیوں کو اس ممکنہ حد تک قانون کے مطابق بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں کہ پاکستانی شہری اپنی زندگی پر امن طور پر گزار سکیں۔

عدالت نے 5 فریقین کو ہدایات ارسال کیں جن میں محکمہ داخلہ، دفاع، اسٹیٹ اور فرنٹیئر ریجنز کے سیکریٹریز اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت شامل ہے۔

خیال رہے کہ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ افغان شہریوں کی بلا روک ٹوک نقل و حرکت پاکستانی شہریوں کے لیے بے شمار مشکلات کا سبب بنتی ہے لہٰذا ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جانی چاہیئے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ 1979 میں سویت افغان جنگ کے بعد لاکھوں افغان شہری ہجرت کر کے پاکستان آگئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ طویل عرصے سے ملک میں افغان شہری آزاد پھر رہے ہیں جنہیں واپس جانا چاہیے لیکن وہ نہیں جاتے جس کی وجہ سے پاکستان میں امن و عامہ کی صورتحال خراب ہوتی رہی ہے۔

درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ فریقین پر افغان مہاجرین کی زندگی قانون کے مطابق بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تا کہ پاکستانی شہریوں کی زندگیوں، آزادی اور املاک کو محفوظ بنایا جاسکے۔

انہوں نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ تقریباً ہر ملک میں غیر ملکی افراد صرف اس صورت میں کاروبار کرسکتے ہیں کہ وہ ورک پرمٹ حاصل کرلیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عدالت کو چاہیئے کہ اس بات کا تعین کرے کہ کس قانون کے تحت افغان مہاجرین کاروبار کررہے ہیں دکانیں چلا رہے ہیں یا کسی قانونی پرمٹ کے بغیر پاکستان میں بلا واسطہ یا بلواسطہ کسی قسم کے کاروبار سے منسلک ہیں جس سے پاکستانی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے اور ملک کے شہری غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔


اپنا تبصرہ لکھیں