پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والا بھارتی نیٹ ورک بے نقاب


یورپی یونین میں فیک نیوز سے متعلق کام کرنے والے تحقیقی ادارے نے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے سیکڑوں ایسی ویب سائٹس اور جعلی تنظیموں کے نیٹ ورک کی نشاندہی کی ہے جو یورپ میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا میں ملوث ہیں۔

کرتارپور راہدراری تقریب: بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈے پر پاک فوج کا ردعمل

بیلجیم کے شہر برسلز میں کام کرنے والی این جی او ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ پر مبنی بی بی سی کی خبر کے مطابق یہ نیٹ ورک 65 ملکوں میں 265 ویب سائٹ کے ذریعے پرانے اور غیر فعال یا جعلی نام کے اخبارات سے بے بنیاد خبریں پھیلاتی ہیں۔

ای یو ڈس انفو لیب کی تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ بتایا گیا ہے کہ ان تنظیموں کا تعلق بھارت کے غیر معروف کاروباری ادارے سری واستوا گروپ سے جاملتا ہے جو کہ یورپ میں پاکستان مخالف پروگرامات منعقد کر کے پروپیگنڈا پھیلاتی ہیں۔

ای یو ڈس انفو لیب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر الیگزینڈر الافلیب نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ جعلی میڈیا ہاؤسز کے زیادہ جعلی این جی اوز کا ہونا پریشان کن ہے کیوں کہ یہ آن لائن اور گراس روٹ لیول پر انہیں اس مقصد کے لیے مدد فراہم کرتی ہیں، یہی وہ جگہ ہے جہاں غلط معلومات موجود ہوتی ہیں۔

غیرملکی میڈیا نے پاکستانی حدود میں بھارتی بمباری کی ویڈیو کا بھانڈا پھوڑ دیا

یاد رہے کہ ای یو ڈس انفو لیب نے اپنی تحقیقات کا آغاز ای پی ٹوڈے نامی ویب سائٹ سے کیا تھا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ برسلز میں یورپین پارلیمنٹ کا آن لائن میگزین ہے۔ اکتوبر میں ڈس انفو لیب نے انکشاف کیا تھا کہ ای پی ٹوڈے رشیا ٹوڈے اور وائس آف امریکا کے مواد کو دوبارہ شائع کرتا ہے۔

محققین نے انگریزی ویب سائٹ کے بھی ایک بڑے نیٹ ورک کی نشاندہی کی ہے جو کہ بھارتی مفادات کے لیے لابنگ میں ملوث ہے۔ لیب نے ان ویب سائٹس کو “زومبی” سائٹس کا نام دیا کیونکہ ان میں سے بیشتر پرانے اور غیرفعال اخبارات کے نام سے جعلی مواد پھیلاتی تھیں۔

یہ ویب سائٹس اپنے نیٹ ورک کی ہی دوسری سائٹس پر موجود پاکستان مخالف رپورٹس اور کالم کو شائع کرتی تھیں جنہیں مذکورہ نیٹ ورک سے جڑی این جی اوز کے ملازمین لکھتے تھے۔

انہی میں سے ایک ویب سائٹ دی ٹائمز آف جنیوا بھی ہے جو بڑی تعداد میں ویڈیو مواد شائع کرتی تھی اور بقیہ ویب سائٹس کے نسبت کافی پُرکشش اور نفیس لگتی تھی۔

تاہم، نومبر میں ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ سامنے آنے کے کچھ دن بعد یعنی 19 نومبر سے اس ویب سائٹ پر کوئی چیز شائع نہیں کی گئی۔ جب بی بی سی نے اس ویب سائٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی تو ان کی کال کو کاٹ دیا گیا جب کہ ویب سائٹ کا یوٹیوب اکاؤنٹ بند کر دیا گیا ہے اور اس کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل کیا جا چکا ہے۔


اپنا تبصرہ لکھیں