اسلام آباد: چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ افغان امن عمل میں پاکستان کی حمایت افغانستان میں امن کے لیے سنجیدگی کا ثبوت ہے۔
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہاکہ امن عمل کے لیے ہماری حمایت اس مقصد کے لیے ہماری خیر سگالی کا مظہر ہے۔
زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے بعد نئی دہلی میں بھارتی وزیر خارجہ سبھرامنیم جے شنکر اور بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دیول سے ملاقات کے بعد پاکستان کا دورہ کیا
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کے مطابق زلمے خلیل زاد نے خطے کے امن و استحکام کے لیے پاکستان کی مستقل کوششوں کو سراہا۔
خیال رہے کہ بھارت نے یہ الزامات مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے نئے الزامات کے تناظر میں لگائے۔
پاکستان نے بھارت کے تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھارت سے مبینہ لانچ پیڈز اور لائن آف کنٹرول پر دراندازی کی کوشش کے شواہد مانگے۔
امریکی نمائندہ خصوصی کے نئی دہلی کے دورے کے باوجود بھارت بے چین ہے کیونکہ واشنگٹن میں افغانستان سے متعلق اس کے بیانیے کو م پذیرائی ملی۔
واضح رہے کہ پاکستان نے امریکا اور طالبان کے درمیان کے مذاکرات میں مدد کی تھی جو 19 برس کی جنگ کے بعد رواں برس فروری میں دوحہ میں تاریخی امن معاہدے پر دستخط کے ساتھ اختتام پذیر ہوئے۔
معاہدے کے تحت طالبان نے جنگ بندی کے لیے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر اتفاق کیا تھا، امن معاہدے کے ذریعے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا راستہ ہموار کرنے کی توقع تھی۔
گزشتہ چند ہفتوں نے طالبان نے افغان حکومت پر حملوں میں اضافہ کردیا ہے، گزشتہ روز بارودی سرنگ کے حملے میں خوست کے پولیس چیف احمد بابازائی ہلاک ہوگئے تھے۔
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ سے طویل ملاقات میں انہوں نے عالمی برادری کے مطالبے کے تحت افغانستان میں کورونا وائرس سے نمٹنے میں بہتر تعاون کے لیے تشدد میں کمی اور جنگ بندی کا پر زور دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں دونوں فریقین کے درمیان قیدیوں کی رہائی کے تبادلے میں تیزی، امریکی شہری مارک فریریکس کی آزادی کو محفوظ بنانے کے اقدامات، امن عمل کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی حمایت اور جلد از جلد انٹرا افغان مذاکرات ضروری ہیں۔
زلمے خلیل زاد طالبان مذاکرات سے مذاکرات کے لیے اسلام آباد سے واپس دوحہ جائیں گے۔
یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں طالبان، حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔
طالبان اور افغان حکومتی وفد کے درمیان مذاکرات میں اس وقت تعطل آیا تھا جب کابل کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ طالبان سرفہرست 15 کمانڈروں کی رہائی چاہتے ہیں۔
بعدازاں 9 اپریل کو طالبان کی جانب سے کابل کے ساتھ مذاکرات سے دستبردار ہونے کے اعلان کے ایک روز بعد ہی افغان حکومت نے کم خطرے والے 100 طالبان قیدیوں کو رہا کیا تھا، ب تک افغان جیلوں سے 9 سو 33 طالبان قیدیوں کو رہا کیا جاچکا ہے۔
دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا تھا کہ بدلے میں کابل انتظامیہ کے ایک سو 32 قیدیوں کو رہا کیا گیا۔