کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی مرکزی کمیٹی نے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید پر حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان معاملات طے پانے کے بارے میں جھوٹ بولنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرین اب جلد ہی مریدکے سے اپنی اعلان کردہ منزل اسلام آباد کے لیے روانہ ہوں گے۔
تنظیم کی مرکزی کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں ٹی ایل پی کے رہنما سید سرور شاہ سیفی نے کہا کہ ’شیخ رشید نے کل جھوٹ بولا کہ معاملات طے پاگئے ہیں، انہوں نے رات 8 بجے (ہم سے) رابطے کے بارے میں بھی جھوٹ بولا، ان کی طرف سے اب تک کوئی بھی سرکاری اہلکار بشمول شیخ رشید کے، نے ہم سے رابطہ نہیں کیا ہے‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ’پوری قوم حکومت کی بدنیتی کو دیکھ لے‘۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز شیخ رشید نے کہا تھا کہ حکومت کو ٹی ایل پی کے مطالبات پر کوئی ’تحفظات‘ نہیں ہیں اور تنظیم کے ساتھ بات چیت کے تمام معاملات پر اتفاق ہے سوائے فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کے معاملے پر۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ حکومت اور ٹی ایل پی دیگر تمام معاملات پر ایک معاہدے پر پہنچ چکے ہیں اور وہ رات 8 بجے دوبارہ تنظیم سے رابطہ کریں گے۔
’فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں‘
شیخ رشید کی جانب سے ٹی ایل پی کے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے مطالبے کو پورا نہ کرنے کے اعلان کے بعد ٹی ایل پی نے کہا تھا کہ اس کے کارکن اب اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔
ملک بدری کے حوالے سے سرور شاہ سیفی نے کہا کہ فرانس نے حکومتی سطح پر توہین رسالت کا ارتکاب کیا تھا اور اسی طرح ٹی ایل پی موجودہ حکومت سے سرکاری ردعمل کی توقع کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کیا یہ ریاست مدینہ کے دعویدار فرانس کو جواب دینے سے قاصر ہیں؟ کیا یہ یہودیوں اور عیسائیوں کے اتنے غلام بن چکے ہیں؟‘
ٹی ایل پی کے بیان میں حکومت سے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے اپنے معاہدے کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ اس تنظیم نے معاہدے کی پاسداری کی اور 40 جانیں گنوانے کے باوجود 3 دن کا وقت دیا۔
سرور سیفی نے کہا کہ اگر مزید خون بہایا گیا تو مطالبات بڑھ جائیں گے اور قوم کو ’اس بے ایمان، جھوٹی اور منافق حکومت سے نجات دلائی جائے گی‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ’قوم سے جھوٹ مت بولو، ہمارے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے، حکومت مذاکرات میں مخلص نہیں لیکن اگر اب مزید خون بہایا گیا تو بدلا لیا جائے گا‘۔
بیان میں وزیر اعظم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ ’ان کو عوام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عوام جان لیں کہ یہ بے ایمان نہ ملک کے وفادار ہیں اور نہ ہی قوم کے اور کپتان کو ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلانے کے لیے پلانٹ کیا گیا ہے‘۔
بیان میں ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ مزید خونریزی اور جانی نقصان کی ذمہ دار وزیر اعظم اور حکومت پر ہوگی۔
اس میں کہا گیا کہ ٹی ایل پی نے اس سے قبل حکومت کے ساتھ 3 مرتبہ معاہدے کیے ہیں اور یہ چوتھی مرتبہ ہوگا۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کو سیل کر دیا گیا
اس سے قبل منگل کی شب راولپنڈی اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مظاہرین کو وفاقی دارالحکومت کی حدود میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے فیض آباد انٹرچینج کو بند کر دیا جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقوں اور سڑکوں کو کنٹینرز سے سیل کرنا شروع کر دیا۔
ذرائع کے مطابق راولپنڈی میں پولیس کی تعیناتی صبح سے پہلے مکمل کی جانی تھی اور کسی بھی احتجاج کو روکنے کے لیے سڑکوں کو کنٹینرز اور خاردار تاریں لگا کر بند کرنا تھا۔
ٹی ایل پی کا احتجاج
واضح رہے کہ ٹی ایل پی نے 12 ربیع الاول کو لاہور میں احتجاج کے تازہ ترین دور کا آغاز کیا تھا جو بنیادی طور پر اس کے سربراہ مرحوم بانی خادم رضوی کے بیٹے حافظ سعد حسین رضوی کی رہائی کے لیے پنجاب حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے تھا۔
سعد رضوی کو 12 اپریل سے پنجاب حکومت نے ’امن عامہ کو برقرار رکھنے‘ کے لیے حراست میں رکھا ہوا ہے۔
بعد ازاں ٹی ایل پی نے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کو دارالحکومت جانے والے راستوں کو بلاک کرنے کا اشارہ دیا۔
تاہم ٹی ایل پی رہنما پیر اجمل قادری نے بعد میں کہا تھا کہ اس اقدام کا مقصد ’حضور ﷺ کا احترام‘ تھا جبکہ سعد رضوی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔
اس دوران جب ٹی ایل پی کے کارکنان نے دارالحکومت کی طرف مارچ کیا تو ان کے ساتھ جھڑپ میں 3 پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔
ٹی ایل پی کے رہنماؤں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جھڑپوں میں تنظیم کے کئی کارکن زخمی ہوئے اور متعدد کو گرفتار کیا گیا۔
ٹی ایل پی کارکنوں کی رہائی کے بعد شیخ رشید نے کہا تھا کہ تنظیم کے ساتھ مذاکرات کا ایک اور دور اسلام آباد میں وزارت داخلہ میں ہوگا۔
پیر کو شیخ رشید نے حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی کے ساتھ ایک دن پہلے مذاکرات کے دوران کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی اور کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی سعودی عرب سے واپسی کے بعد وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس معاملے پر بات کی جائے گی۔