وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت وفاق نے سندھ حکومت سے کراچی کے 3 بڑے ہسپتالوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے لوازمات پورے نہیں کیے ہیں۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں واقع تین ہسپتال سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وفاق کو منتقل ہونے تھے تاہم سپریم کورٹ کے 17 جنوری 2019 کے فیصلے میں چند مندر جات طے کیے گئے تھے جن کو پورا کرنا ان اداروں کے وفاق کے کنٹرول میں جانے کے لیے ضروری تھے۔
انہوں نے کہا کہ وفاق نے سپریم کورٹ کے طے کردہ ان لوازمات میں سے کسی کو بھی پورا نہیں کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف لیڈران ان ہسپتالوں کنٹرول سنبھالنے کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں مگر ان کی حکومت سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ان لوازمات کو پورا نہیں کر رہی۔
انہوں نے بتایا کہ 2011 میں جب یہ ہسپتال سندھ حکومت کو منتقل ہوے تو ان کا مجموعی بجٹ ایک ارب روپے تھا اور اب سندھ حکومت اس پر ہر سال 15 سے 16 ارب خرچ کرتی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’2011 کے بعد ان ہسپتالوں کی ترقی کا سفر شروع ہوا اور دل کے عارضے کے سلسلے میں جس طرح نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیز (این آئی سی وی ڈی) نے خدمات انجام دیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں‘۔
مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ ’پاکستان بھر سے لوگ یہاں علاج کے لیے آتے ہیں اور اب سندھ حکومت نے این آئی سی وی ڈی کی سندھ کے مختلف اضلاع میں بھی سہولیات قائم کردی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ مزاق اڑاتے ہیں مگر مجھے فخر ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی یہاں علاج کرانے آئے ہیں کیونکہ وہ علاج جس کی فی مریض 50 ہزار سے 90 ہزار ڈالر خرچہ آتا ہے یہاں مفت ملتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اس بات پر فخر کے بجائے پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کہ جو اخراجات سندھ حکومت نے گزشتہ دس سالوں میں ان ہسپتالوں پر کیے ہیں اسے وفاق کو سندھ حکومت کو ادا کرنے ہوں گے‘
۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کیسے وفاق ان ہسپتالوں کا کنٹرول سنبھالیں گے، کیسے اس کے اخراجات کو برداشت کریں گے اور کس طرح وہ اس کے نیٹ ورک کو مزید پھیلائیں گے، اس بارے میں ہمیں اب تک وفاق سے کوئی خط موصول نہیں ہوا ہے‘۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’وفاق کے پاس مالی طور پر اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ ان ہسپتالوں کو چلا سکے‘۔
خیال رہے کہ مئی 2019 میں وفاقی وزارت صحت نے سپریم کورٹ کے جنوی 2019 میں دیے گئے حکم کے تحت کراچی کے تینوں بڑے ہسپتال واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
تاہم اس کے بعد سے وفاقی حکومت ہسپتالوں کا انتظام سنبھالنے سے گریزاں ہے جو اب تک سندھ حکومت کے پاس ہے۔
واضح رہے کہ آئندہ سال 21-2020 کے لیے وفاقی بجٹ کے بیان کے مطابق وفاقی حکومت نے ان ہسپتالوں کو چلانے کے لیے 14 ارب 18 کروڑ روپے مختص کیے جس میں سے 9 ارب 24 کروڑ 20 لاکھ روپے این آئی سی وی ڈی، 3 ارب 87 کروڑ 70 لاکھ روپے جے پی ایم ی اور ایک ارب 7 کروڑ روپے این آئی سی ایچ کے لیے مختص کیے گئے۔
طبی عملے کے تحفظ کے لیے قانون منظور
مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ گزشتہ دنوں میں سندھ اسمبلی میں کئی اہم قانون سازیاں ہوئی ہیں جن میں میڈیکل اسٹاف اور ہسپتالوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قانون کی منظوری بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ان مشکل حالات میں ہسپتال کے عملے کو کوئی ہراساں نہ کرسکے اس کے لیے سندھ اسمبلی نے قانون منظور کرلیا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ قانون کی اسمبلی سے منظوری کے بعد اسے گورنر سندھ کو بھجوا دیا گیا ہے جس کے بعد اس کا اطلاق ہوجائے گا۔